ناصر زیدی (راولپنڈی)
گرچہ اکثر فریب کھاتا ہوں
پھر بھی اُ لفت کے گیت گاتا ہوں
بال بکھرا کے بیٹھ جاتی ہو!
اور میں اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں
حُسن کی کج ادائیوں کی قسم ‘
عشق کے واسطے میں داتا ہوں
ورنہ میری بساط ہی کیا ہے
کچّے دھاگے کا ایک ناتا ہوں
تُم پکارو ذرا محبت سے
لو میں آیا‘ابھی میں آتا ہوں
اب مجھے خود پہ اختیار نہیں
پھر تصور میں تجھ کو لاتا ہوں
شب کی تنہائیوں میں اے ناصرؔ!
خود کوپہلو میں اُس کے پاتاہوں