حامدی کاشمیری(سری نگر)
منجمد چُپ سمندروں میں ہے
بے قراری شناوروں میں ہے
رفتگاں کا گزر ہوا شاید
شور سا سوختہ گھروں میں ہے
سو گئے پھر کبھی نہیں جاگے
سحر کیسا صنوبروں میں ہے
ریت کو خونِ دل سے سینچتے ہیں
کیسی آشفتگی سروں میں ہے
ختم کر لی لہو نے سب تفریق
ایک ہی رنگ منظروں میں ہے
بستی بستی ہے شب کا سناٹا
صبح کا شور مقبروں میں ہے