ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ(بیکانیر)
نذیرفتح پوری میدانِ شاعری، ناول نگاری او رمضمون نگاری میں اپنے قلم کی سحر طرازیاں دکھاچکے ہیں۔ اب انہوں نے تحقیق کی وادیٔ خار زار میں قدم رکھاہے، جس کا عمدہ نمونہ زیرِ نظر تالیف ’’تاریخ و تذکرۂ فتح پور شیخاواٹی‘‘ کی صورت میں منظرِ عام پر آیاہے۔
نذیرؔفتح پوری نے تاریخ اور تذکرے کوایک ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ہوسکتاہے بعض حضرات کے نزدیک ان کا یہ عمل خلطِ مبحث کا درجہ قرار پائے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے تذکرہ اور تاریخ کا امتزاج پیش کرناہی اپنے پیشِ نظر رکھا ہو۔ گو کہ تذکرہ اور تاریخ کو اب تک دو چند کرکے دیکھا گیاہے کیونکہ تذکرہ نقشِ اوّل اور تاریخ نقش ثانی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مؤلف نے ابتداً اس تالیف کو ’’تذکرۂ شعرائے فتح پور‘‘ کے نا م سے مرتب کیاتھا لیکن کسی سبب سے یہ تذکرہ تاریخ کا حصّہ بھی بن گیا اس سلسلے میں نذیر فتح پوری نے واضح طور پر لکھا ہے:
’’میں نے ۱۴؍اگست ۲۰۰۱ء کو ’’تذکرہ شعرائے فتح پور‘‘ کا پہلا صفحہ لکھا، اس کے بعد ایسی دُھن سوا رہوئی کہ ۱۴؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو کتاب مکمل کرکے دستخط کردیئے۔ پھر اس کی اشاعت کے لیے راجستھان اردو اکادمی جے پور کے سابق سکریٹری معظّم علی سے رابطہ قائم کیا، انہوں نے کہا پہلی فرصت میں مسوّدہ ارسال کردیں، دراصل فتح پور سے لوٹتے وقت جے پور میں معظّم علی سے مل کر تذکرے کی اشاعت کے لئے انہیں آمادہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد ہی ترتیب و تدوین کا کام شروع کیا تھا۔ جیسے ہی کام مکمل ہوا مسوّدہ اکادمی کو ارسال کردیا۔ دو ماہ انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھا رہا، لیکن اکادمی کی جانب سے مسودے کی رسید بھی نہیں ملی․․․․․․․جب میں نے متعدد خطوط لکھ کر معظّم علی سے صورتحال معلوم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن فون پر انہوں نے جو صورت حال بتائی اس سے مجھے دُکھ پہنچا۔ اسی دوران جان کوی نعمت خان اور اکبر کی بیوی تاج کویتری کے تعلق سے کچھ اور انکشافات ہوئے۔ بابرکی فتح پور آمد کا مسئلہ بھی زیرِ قلم آیا۔فخرالتواریخ کا مسودہ بھی مطالعہ میں آیا۔ ان تمام چیزوں کی شمولیت کے بعد مساجد، کنویں اور حویلیوں کی تفصیل بھی شامل کرلی گئی۔ فتح پور کے میلے اور تہواروں کے ساتھ ہی موسم اور فصلوں کی نوعیت اور کیفیت کا احوال بھی شامل کیا گیا، پھر کتاب کا نام بھی تبدیل کرکے، تاریخ و تذکرہ فتح پورشیخاواٹی، طے پایا‘‘(۱)
نذیر ؔفتح پوری کی اکثر تالیفا ت میں یہ التزام دیکھا گیاہے کہ وہ باضابطہ طورپر ابواب قائم کرنے کے بجائے چیدہ چیدہ موضوعات کے تحت اظہارِ خیال کرتے ہیں، زیرِ نظر تالیف میں بھی ایسا ہی ہواہے کہ انہوں نے تیس مستقل اور ذیلی عنوانات قائم کیے ہیں، تذکرے سے قطع نظر تاریخ میں ادوار کی تقسیم اور ابواب کی ترتیب کو لازمی قرار دیا گیاہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے زمان و مکاں کی قید کو بھی ضروری نہیں سمجھا، چنانچہ یہ کتاب فتح پور کی تاریخ سے متعلق بعض اہم حصّوں کو روشن کرتی ہے، منظّم تاریخ لکھنا شاید نذیر فتح پوری کا مقصد و منشاء نہیں رہا۔ لیکن انہوں نے اپنے تئیں جو عنوانات قائم کیے ہیں ان میں اختصار ضرور ہے لیکن بڑی جامع اور معنی خیز معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
اس تالیف کو محض ادبی تذکرہ یا تاریخ پر محمول نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ اس میں ادب کے علاوہ، تہذیب، تمدّن، ثقافت، فنونِ لطیفہ کے علاوہ فتح پور کی سماجی اور سیاسی زندگی کو بھی معرضِ بحث میں لایا گیاہے، تاہم اسے فتح پور کی ’’ثقافتی اور تہذیبی تاریخ‘‘ قرار دینا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتاہے۔
’’قائم خانی قوم کی ابتدا‘‘ اور ’’قائم خانی نوابو ں کی خصوصیات‘‘ ایک دوسرے سے مربوط موضوعات ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے قائم خانی بہادر اور سپاہی پیشہ قوم ہے، ہندوستان کی تاریخ میں اس قوم نے اپنی بیش بہا خدمات کے سبب روشن باب کا اضافہ کیاہے۔
قائم خانی قوم کا وجود کس طرح عمل میں آیا اس سلسلے میں مؤرخین میں اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ لیکن اس بابت جان کوی نعمت خان کی تصنیف ’’قائم راسا‘‘ کو بعض محققّوں اور مؤرخوں نے مستند مآخذ قرار دیاہے، نذیرؔ فتح پوری نے بھی ’’قائم راسا‘‘ کے بیانا ت کی روشنی میں اعتدال پسندانہ نتائج برآمد کیے ہیں۔
’’قائم خانی نوابین کی خصوصیات‘‘ کے تحت مؤلف نے ان کی انفراتی خصوصیات اور اوّلیات کے سہروں کاذکر کیاہے،اوّلیات کے سہروں کی فہرست طویل ہوسکتی تھی لیکن نذیرؔ فتح پوری نے صرف ۲۲اعداد و شمار پر قناعت کی ہے،یہاں تمام تر تفصیلات درج کرنے کا محل نہیں اگر تفصیلات معلوم کرنا مطلوب ہو تو اس تالیف کا صفحہ ۳۳تا۳۴ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ مو ضوعات کے بعد شریکِ اشاعت کئے گئے موضوعات براہِ راست فتح پور سے متعلق ہیں جن میں ایک موضوع ’’باشندگان فتح پور‘‘ ہے جو محض ایک صفحے پر محیط ہے جس میں مؤلف نے یہ بتایاہے کہ فتح پور میں کم و بیش اٹھائیں مسلم برادریاں موجود ہیں۔ اور ماضی میں تجارت پیشہ ہندوسیٹھ اور ساہوکار بھی یہاں کے باشندگان میں شامل تھے۔مؤلف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ فتح پور کے باشندوں نے کسبِ معاش کے لیے ہندوستان کے مشہور شہروں اور بیرونِ ممالک میں بھی سکونت اختیارکی او رکامیابی و کامرانی کا پرچم لہرایا۔ اس سلسلے میں مؤلف نے کتنا سچ لکھاہے کہ
’’چونکہ عام طور پر راجستھانی محنتی اور جفاکش ہوتے ہیں، ایماندار اور دیانت دار بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘‘(۲)
فتح پور کب آباد کیا گیا؟، یہ بھی ایک پیچیدہ اور تحقیق طلب موضوع ہے جسے نذیرؔ فتح پوری نے ’’قیام فتح پور کے تاریخی تضادات‘‘ کے زیرِ عنوان سلجھانے کی کوشش کی ہے، اس سلسلے میں انہوں نے ہندی، راجستھانی اور اُردو کے بعض تاریخی مآخذ ات کی روشنی میں استنباط نتائج کی سعی کی جن میں محبوب علی خان کی تالیف ’’قائم خانیوں کا شودھ پورن اتہاس‘‘ اور نعمت خاں کی ’’قائم راسا‘‘ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، مؤلف نے فتح پور کے قیام کے سلسلے میں وکرم سمت ۱۸۰۸مطابق ۱۴۵۱عیسوی یعنی ۲۰صفر ۱۸۵۷ہجری سے اتفاق رائے کیاہے ۔
’’مختصر تاریخ۔۔فتحپور شہر کے نوابین‘‘ میں نوابین کاذکر اختصار سے کیا گیاہے، جن نوابین کا تذکرہ آیاہے اُن میں فتح خاں بہادر، نواب جلال خاں، نواب درِ دولت خاں، نواب ناہرخاں، نواب فدن خاں، نواب تاج خاں، نواب الف خاں، نواب دولت خاں دوئم، نواب سردار خاں، نواب دیندار خاں، نواب سردار خاں دوئم اور آخری نواب قائم خاں کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔مؤلف نے نوابین کی سخاوت، فیّاضی،شجاعت، علم و ادب سے رغبت کے علاوہ مغلوں اور دیگر معاصر رجواڑوں سے باہمی تعلقات کو بھی موضوعِ بحث بنایاہے، اس بابت جس قدر مطبوعہ و غیر مطبوعہ مصادر و مآخذ کی ضرورت تھی، مؤلف نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ فتح پور کے نوابین کے متعلق ان کا مندرجہ بیان حاصلِ مطالعہ کی حیثیت رکھتاہے، جس میں کہا گیاہے کہ:
’’فتح پور کے نواب غیر متعصّب تھے بلکہ مسلمانوں سے زیادہ انہوں نے ہندورعایاکو اپنے قریب رکھا۔ اُن دنوں فتح پور کی تجارتی منڈی پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ نوابوں کے دورِ اقتدار میں مندروں کی تعمیر کثرت سے ہوئی، مسجدیں کم بنیں۔ فتح پور کے سنت کَوی سُندرداس کا نواب کے دربار میں بڑا احترام تھا۔ نوابوں کی بیگمات بھی ہندو گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ فتح پور کے کسی بھی نواب نے مذہبی بنیادوں پر کبھی جنگ نہیں لڑی۔ انہوں نے سادھو سنتوں کا ہمیشہ احترام کیا۔ فتح پور کے نوابین کے سیکولر کردار کی مثال نہیں ملتی‘‘
’’شہنشاہ بابر فتح پور میں‘‘ کے زیرِ عنوان مغل بادشاہ بابر کی فتح پور میں آمد کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ:
’’یہ تب کی بات ہے کہ جب دِلّی پر سکندر لودھی کی حکومت تھی۔ فتح پور میں اُس وقت نواب درِ دولت خا ں کا راج تھا۔ اُس وقت بابر ایک قلندر کے بھیس میں ہندوستان آیا تھا۔ اپنے سفر کے دوران بابر نے فتح پور کا سفر بھی کیا تھا‘‘(۲) اس ذیل میں ’’نگر نگراں فتح پور‘‘ فخرالتواریخ‘‘ ’’قائم خانیوں کا شودھ پورن اتہاس‘‘ اور ’’قایم راسا‘‘ کے حوالے سے قلم اٹھایا گیاہے۔ مؤلف نے اپنی محققانہ ذمّے داریوں کے پیشِ نظر حسب موقع مؤرخین کے بیانات سے اتفّاق و اختلاف بھی کیاہے۔ اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے اپنے فکر و تدبّر سے خاطر خواہ نتائج بھی نکالے ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کے مندرجہ ذیل اختلافی بیان سے بھی فراہم ہوتی ہے:
’’محبوب علی خاں نے معلوم نہیں کن بنیادوں پر لکھ دیا کہ سنت بابر نے فتح پور ہی میں قیام کیا۔ اُس کے انتقال کے بعد اُسے فتح پور کے مغربی حصّہ میں دفن کیاگیاجہاں اس کا مزار ’’شیرِ سلطان‘‘ کی درگاہ کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ جبکہ ’’راسا‘‘ہمیں بتاتاہے کہ بابر الور سے ہوتاہوا کابل پہنچا۔وہاں جاکر اُس نے جن تین ہندوستانی بہادروں کی تعریف کی ان میں ایک نام نواب درِ دولت خاں کا بھی ہے‘‘(۱)
جان کوی نعمت خا ں کے متعلق اس تذکرے میں پانچ عناوین کے حوالے سے پُر از معلومات انکشافات کیے گیے ہیں۔ گوکہ جانؔ کوی کی تخلیقات ناگری رسم الخط میں ہمدست ہوتی ہیں لیکن مؤلف نے ان کی تخلیقات کے اندرونِ صفحات سے ایسی تحریریں تلاش کی ہیں جو فارسی اور اُردو سے قریب تر ہیں چنانچہ اس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا شاید غلط نہ ہوگاکہ جانؔ کوی کو اِن دونوں زبانوں سے متعلق خاصی واقفیت رہی ہوگی، جان کوی فتح پورکے نواب دیوان الف خاں کے نورِ نظر تھے، انہوں نے میدانِ شاعری میں ہانسی کے ایک بزرگ شیخ محمد چشتی کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا تھا۔ یوں تو جانؔ کوی نے مختلف اصناف کے ذریعہ اپنے احساسات و خیالات کااظہا ر کیالیکن دوہا اُن کی پسندیدہ صنف تھی۔ چنانچہ مختلف حادثات و واقعا ت کو انہوں نے اپنے دوہوں کا موضوع بنایا۔ نذیر فتح پوری نے جانؔ کوی کی ۷۵عدد کتابوں کاذکر کیاہے یہ تمام کتابیں راجسھتان اسٹیٹ آرکائیوز بیکانیر میں محفوظ ہیں اور بیشتر زیورِ طبع سے ہنوز محروم ہیں۔ اُن کتابوں میں ’’قائم راسا‘‘ کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔ مؤلف نے راسا میں فارسی الفاظ کی فراوانی کی نشاندہی محققانہ انداز میں کی ہے۔ جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے انہوں نے تحریر فرمایاہے کہ:
’’کسی نے راسا کی زبان کو’سورٹھ مارو‘ بتایاہے، کسی نے اسے ’مارو گرجر‘ لکھاہے کسی نے مارواڑی اور گجراتی لکھاہے۔ پرانے زمانے میں راجستھانی اور گجراتی دونوں زبانیں ایک ہی تھیں، مغلوں کی حکومت جب ہندوستان میں قائم ہوئی تب ان زبانوں میں دھیرے دھیرے دوری بڑھتی گئی اور آگے چل کر دونوں صوبوں کی زبانیں الگ الگ طورپر پہچانی جانے لگیں‘‘(۲)
ہندی کے بعض اہلِ قلم نے یہ افواہ پھیلادی تھی کہ جانؔ کوی غیر مسلم تھے، واضح ہو کہ ایسی غلط بیانی اور خلفشار اکثرایسے کویوں اور ادیبوں کے تعلق سے کیا جاتا رہاہے جو مذہبِ اسلام سے متعلق تھے اور ہندی،برج یا راجستھانی میں ادب تخلیق کرتے تھے، چنانچہ ایسے شرپسندوں کو نذیر فتح پوری نے اِس طرح آڑے ہاتھوں لیاہے:
’’تعجب ہے کہ مِشرا(یعنی ڈاکٹر رتن لال مِشرا) اور مُنی( یعنی مُنی جن وجے) دونو ں ہی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نام سے وہ مسلمان رہا ہو لیکن عقیدے اور روح کے اعتبار سے وہ ہندو تھا۔ حالانکہ جانؔ نے متعدد جگہ اللہ اور رسول کا ذکر کیاہے۔ ان بزرگوں کا ذکر کیاہے جن کے ہاتھ پر اس نے بیعت کی تھی۔ ہندی کے محققوں اور ناقدوں نے اکبر کی بیوی تاج کویتری کو بھی ہندو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ ایک جگہ تو اسے کرشن بھگت بتایا گیاہے‘‘(۱)
اس تذکرے میں ایک موضوع تاجؔبی بی کے متعلق بھی ہے، جونواب دیوان فدّن خاں کی صاحب زادی تھیں اور جن کی شادی مغل بادشاہ اکبرِ اعظم سے ہوئی تھی۔ ہندی کی اکثر ادبی تاریخوں اور تذکروں میں بہ حیثیت ہندی کویتری اُن کاذکر اہلِ قلم حضرات نے کیاہے، غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ نذیرؔ فتح پوری نے اُردو میں اُن کے متعلق خامہ فرسائی کی ہے۔ تاجؔ بی بی نے منظومات، دوہے اور بعض مذہبی نوعیت کے گیت تخلیق کیے جن سے اُن کی علم وادب سے وابستگی اور شعری استعداد کا علم ہوتاہے۔ مؤلف نے بھگت شِرومنی میراؔ بائی کے بعد تاج کویتری کو راجستھان کی اہم ’خاتونِ ادب‘ ثابت کیاہے اور ان کے کلام سے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ تاج بی بی کا رجحان طنز و مزاح کی طرف بھی تھا چنانچہ اس ذیل میں مؤلف رقم طراز ہیں کہ:
’’تاج کی مشہور کتاب ’بیوی باندی کا جھگڑا‘ ہندی ادب کے ناقدین کے لئے موضوعِ بحث رہی ہے۔ اس کتاب میں عام انسانی زندگی کا احوال مزاحیہ پیرایۂ اظہار میں کیاگیاہے۔ اس لیے اسے ایک سنجیدہ اور بھگتی رس میں ڈوبی ہوئی شاعرہ کا کلام نہیں کہا جاسکتا۔بعض کایہ بھی کہناہے کہ یہ تخلیق تاج کی ابتدائی دنوں کی لکھی ہوئی ہے۔ جب وہ بھگتی کے رموزو اسرار سے واقف نہیں تھی‘‘(۲)
فتح پور کے شیخاوت حکمرانوں کا تذکرہ بھی اس تالیف کا قابلِ قدر حصّہ ہے، گوکہ یہ تذکرہ محض سواصفحے پر محیط ہے لیکن مؤلف نے یہ بتایاہے کہ مسلم نوابین نے تقریباً ۲۸۰برس تک فتح پور پر حکومت کی لیکن بعد ازاں یہ علاقہ شیخاوت حکمرانوں کے زیرِ اقتدار آگیا۔ جن حکمرانوں کاذکر کیاگیاہے ان میں راؤ شری شِو سنگھ، راؤ شری ناہر سنگھ، راؤ شری چاند سنگھ، راؤ شری دیوی سنگھ، راؤ شری لکشمن سنگھ، راؤ شری رام پرتاپ سنگھ، راؤ شری بھیروسنگھ راؤ شری مادھو سنگھ اور شری کلیان سنگھ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ نذیر فتح پوری نے لکھاہے کہ شیخاوتوں نے یہاں تقریباً ۲۱۶برس حکومت کی یہ تمام حکمراں غیر متعصب تھے لیکن انہوں نے ’’شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دیا، البتہ نوابوں کے بنائے محلوں اور دیگر عمارتوں کا تحفّظ ضرور کیا‘‘(۱)
فتح پورکو مسجدوں ،کنوؤں اور حویلیوں کا شہر بھی کہا جاتاتھا۔ چنانچہ متحقِّق طور پر نذیر فتح پوری نے یہاں کی مسجدوں، کنوؤں اور حویلیوں نیز جدید طرزِ تعمیر کے نمونوں کاذکر کیاہے۔ موضوع کو دلچسپ بنانے کی غرض سے بعض اہم تصاویر بھی جا بہ جا چسپاں کی گئی ہیں تاکہ قاری کا تصوّر تعبیر کی صورت اختیارکرسکے۔
’’چیدہ چیدہ‘‘ موضوعات کے تحت چند اہم اقتباسات جن کی حیثیت ذیلی عنوانات کی سی ہے، پیش کیے گئے ہیں، یہ موضوعات، معلومات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں اور ان کے بغیر فتح پور کی تاریخ بھی مکمل نہیں ہوسکتی، لہٰذا ان موضوعات کی شمولیت کو نذیرفتح پوری نے ناگزیر سمجھا، موضوعات یہ ہیں(۱)کچھ اور نوابوں کے بارے میں (۲)فخرالتواریخ (۳) پاکستان میں فتح پور کا تذکرہ (۴)آستانۂ درِ دولت خاں (۵)فتح پور کی آبادی (۶)موسم اور فصلیں (۷)کاروبار (۸)سواریاں (۹) میلے اور تہوار (۱۰)تیج اور گنگور(۱۱) بُدھ گروجی کا میلہ (۱۲) بھوری مِٹّی (۱۳) مِنسٹر گاڑی’یعنی گدھا گاڑی‘ اور ترنم کے جادوگر۔ یہ تمام موضوعات تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے فتح پور کی چلتی پھرتی تاریخ کے آئینہ دار ہیں۔
شیخاواٹی میں پہلی تصنیف کے خالق کے بطور حضرت حاجی نجم الدین کاذکرِ خیر مؤلف نے بعض ناقدوں اور محققوں کے بیانات سے اختلاف کرتے ہوئے کیاہے۔ ایک بحث یہ بھی اٹھائی گئی ہے کہ بعض لوگوں نے نجم الدین نجم اور نجم الدین پروانہؔ کو الگ الگ شخص بتایاہے، مؤلف کے نزدیک یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں، تحقیق چونکہ نہایت صبرآزما فن ہے اور عجلت پسندی آدابِ تحقیق میں جائز نہیں چنانچہ اِس بحث کو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھناہی بہتر ہے کیونکہ راقم الحروف اس موضو ع پر پہلے ہی سے مصروفِ تحقیق ہے۔ مؤلف کا بیان ہے کہ نجم الدین صاحب نے اپنی ۵۲برس کی عمر میں ۵۲کتابیں تصنیف کیں اُن کا نام ابھی پردۂ اخفامیں ہے، میں مؤلف کے اس بیان سے بصد معذرت اختلاف کرتے ہوئے عرض کروں کہ ان کی دس پندرہ کتابیں میری نظر سے گزر چکی ہیں جو اجمیر کے دو ایک ذاتی کتب خانوں اور درگاہِ معلّیٰ حضرت غریب نواز کے دارالعلوم عثمانیہ اجمیر القدس میں محفوظ ہیں۔ نجم الدین کے ساتھ اکثر کتابوں پر لفظ پروانہ تخلص کی علامت کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت نجم الدین نے فارسی، اردو اور ہندی میں جو کتابیں تصنیف کیں ان میں چند نام اس طرح ہیں:
(۱)شجرۃ العارفین (حالات خواجگانِ چشت و مشائخ)
(۲)شجرۃ المسلمین (تاریخِ نوابین فتح پور شیخاواٹی)
(۳)شجرۃ ا لابرار (خواجہ صوفی حمیدالدین ناگوری کی سوانحی)
(۴)مناقب الحبیب (احوالِ خواجہ معین الدین چشتیؒ)
(۵)مناقب التارکین (حالات خواجہ حمیدالدین ناگوری)
(۶)مناقب المحبوب (حالاتِ مشائخ سلسلۂ چشتیہ و ملفوظات خواجہ سلیمان تونسوی)
(۷)راحت العاشقین (۸)تذکرۃ السلاطین (احوال بادشاہِ ہند)
(۹)گلزارِ وحدت (۱۰)احسن العقائد (۱۱)نجم الواعظین (۱۲) ہدایت نامہ
(۱۳)مقصود العارفین (شرح اور ادِ شیخ نصیرالدین) (۱۴)نجم الہدایت (۱۵)خیالاتِ نجمی (۱۶)دیوانِ نجمی فارسی (۱۷)احسن القصص (۱۸)نجم الآخرت(مسائل شریعہ)
(۱۹)فضیلۃ النکاح(مسائلِ شریعہ) (۲۰) حیات العاشیق (۲۱)بیان الاولیا (۲۲)تذکرۃ الواصلین (۲۳)سِماع السّامعین (۲۴)ماحی الغیریت (۲۵)افضل الطّاعت (۲۶)دیوانِ نجم اُردو (۲۷)پیر ملانی غیر بھلانی (۲۸)پریم گنج(دوہوں کامجموعہ)
(۲۹)یارہ ماہیہ نجمؔ وغیرہ۔ مزید تصانیف کی تفصیل کے لیے ’’سلطان التارکین‘‘ مرتبہ احسان الحق فاروقی مطبع مشہور آفسیٹ پرنٹنگ پریس کراچی، ۱۹۶۳ء کا صفحہ نمبر ۳۸۸تا ۳۹۰اور دیگر صفحات ملاحظہ فرمائیں۔
عارفؔ فتح پوری کا استقبالیہ نغمہ جو اسلامیہ اسکول عیدگاہ کادائمی ترجمان بن چکاہے،بقولِ مؤلف یہ نغمہ سرزمینِ فتح پور میں تخلیقی ادب کا سنگ میل قرار دیا جانا چاہیے، اسی لیے زیرِ نظر تالیف میں اسے جگہ دی گئی ہے۔ جب بھی کوئی مہمان اسلامیہ اسکول عیدگاہ میں تشریف لاتا ہے تو اُس کے خیرمقدم میں یہ نغمہ گایا جاتاہے۔ علاوہ ازیں فتح پور کی ادبی انجمنوں کا تعارف جن میں بزم شاہد، بزمِ احساسِ ادب اور انجمن ترقی اُردو کا تذکرہ کیا گیاہے۔ اسی ذیل میں اب تک منعقد ہوئے مشاعروں اور ادبی نشستوں کی روداد بھی قابلِ ذکر ہے۔
’مہمان شعرا‘ کے عنوان کے تحت ان شعرائے کرام کا تذکرہ کیا گیاہے جو مختلف تقریبات میں شرکت کی غرض سے فتح پور تشریف لاتے رہے شاید یہ پہلا تذکرہ ہوگاجس میں مہمان شعراء کی اس درجہ عزّت افزائی کی گئی ہے۔ فارسی اور اُردو کے اکثر تذکروں کایہ ناقص پہلو رہاہے کہ بیشتر تذکروں میں شعراء کے حالات چند لفظوں میں بیان کیے گیے ہیں اور کلام پر رائے زنی کرتے وقت اکثر تذکرہ نگاروں نے رٹے رٹائے اور نپے تُلے الفاظ استعمال کیے ہیں نیز انتخابِ کلام بھی دو ایک شعر تک محدود رہا۔ اور ستم یہ کہ بعض تذکروں میں صرف گناہگارانِ تخلص اور متشاعروں کوبھی ’شاعر‘ ہونے کااعزاز بخش دیاگیا۔ بحمد اللہ کہ نذیرؔ فتح پوری نے متشاعروں اور تخلص کے گناہگاروں کے ذکر سے تذکرے کو بوجھل نہیں کیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ نذیرؔ فتح پوری ایماندار اور خداپرست انسان ہیں اُن کا ضمیر زندہ ہے، انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے پیشِ نظر جاہل اور گنوار قسم کے لوگوں کو شعر لکھ لکھ کر دے رہے ہیں، وہ ایک طرف ادب میں تو غلاظت پھیلا ہی رہے ہیں دوسری طرف خود اپنی عاقبت بھی خراب کررہے ہیں۔
نذیرؔ فتح پور ی نے عام تذکروں کی روش سے انحراف کرتے ہوئے ادبی تواریخ کے نہج پر شعرائے فتح پور کے سوانح اور انتخابِ کلام پیش کیاہے، انہوں نے بیک وقت مؤرخ، محقق اور ناقد ہونے کا حق بحسن و خوبی ادا کیا۔ اس ذیل میں فتح پور کے مرحومین اور موجودہ شعرا کے متعلق ان کی تحریریں قابلِ صد تحسین ہیں، جن مرحومین شعرا کا ذکر کیاگیاہے ان میں آفتابِ شیخاواٹی حضرت نجم الدین نجمؔ، حاجی محمد نصیرالدین شاہ، نور احمد صاحب نور فتح پوری،مولانا محمد رمضان فاروقی، خواجہ غلام سرور فتح پوری، حافظ محمد عیسیٰؔ فتح پوری، خواجہ محمد حنیفؔ، محمد ابراہیم خیالؔ،غلام سَرور وفاؔ، ممدو آوارہؔ، منور علی منورؔ، محمد جیون حیاتؔ،قمرالدین خاں قمرؔ، ماسٹر اصغرؔ علی، حاجی محمد یاسینؔ اور موجود ہ شعراء میں پیر محمد عارفؔ نجمی، عمردین خاں صباؔ، عبدالکریم خاں کریمؔ، غلام جیلانی نجمیؔ، محمد اسماعیل عادلؔ، نثار احمد راہیؔ، نذیر فتح پوریؔ،منصور احمد نیر،محمد الیاس قمر،شبیر حسن فراز،صلاح الدین عنبر، شوکت علی گوہرؔ، لیاقت علی خاں وقارؔ، عبدالرب نشترؔ، پون کمار پروانہؔ، غلام دستگیر ضیاؔ، شمبھوپرساد پاریکھ، محمد حسین مدنی، محمد ناصرؔ، محمد رفیق رازؔ، یعقوب نازؔ، محمد اسماعیل غازیؔ، شوکت علی جذبیؔ، رفیق منظرؔ اور ادریس رازؔ چوروی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
اُردو کے نامور ناقدوں نے اکثریہ شکوہ کیاہے کہ ہمارے تذکرے اور ادبی تواریخ، واقعات کی کتھونی مرتب کرنے تک ہی محدود رہیں، ان میں رسمی بیانات پر توجہ صَرف کی جاتی رہی ہے افکار کی تاریخ پیش کرنا ان کا مقصد نہیں رہالیکن نذیر فتح پور قابلِ مبارکباد ہیں کہ ان کا تذکرہ واقعات کی کھتونی ثابت نہ ہوا، افکار کی تاریخ مرتّب کرنابھی ان کے پیش نظر رہا۔ ان کا زیرِ بحث تذکرہ ان تذکروں سے قدرے بہتر ہے جو ماضی قریب میں راجستھان کے مختلف علاقوں کے متعلق شایع ہوئے اِن آدھے ادھورے تذکروں کے نام نہاد مؤلفین نے چند ایسے لوگوں کابھی تذکرہ کرڈالاجو اُردو سے ناواقف ہیں اور دیوناگری رسم الخط میں دوسروں کے اشعار پڑھتے ہیں، اِن تذکرہ نگاروں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاعری کے لیے اُردو یا اُردو رسم الخط سے واقفیت ضروری نہیں، دراصل یہ دونمبر کے لوگ ہماری تہذیب و تمدّن کے سخت دشمن ہیں،بہرحال نذیرؔ فتح پوری کی زیرِ بحث تالیف ’’مثالی تذکرہ‘‘ یا ’’تاریخ‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
فتح پور میں چند ایسے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جن میں تعلیم و تربیت حاصل کرکے طلباء نے اپنی زندگیوں کو سنوارا۔ کہا جاتاہے کہ تعلیمی اور تربیتی اداروں کے ذکر کے بغیر کسی بھی خطّے کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ نذیر فتح پوری نے فتح پور کے چند تعلیمی اداروں کاذکر کیاہے جن میں پہلاادارہ اسلامیہ اسکول عیدگاہ ہے جس کا قیام ۱۹۰۰ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس مدرسے میں پیرمحمد حسین صاحب، قاضی نواب علی صاحب،طالب علی صاحب اور پیر اصغر علی صاحب جیسے باکمال اساتذہ نے برسوں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے گوکہ اس ادارہ میں ادب یا ساہتیہ کی باضابطہ تعلیم نہیں دی جاتی رہی لیکن نصاب میں شامل شہ پاروں کو پڑھتے پڑھتے طلبا میں ادبی شعور پیدا ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ نذیر فتح پوری جیسے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ادیب نے اس ادارے کا نام روشن کیا۔ اس ادارے نے بھی نذیرؔ صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا چنانچہ ۲۰۰۰ء میں اُن کا اعزازی جشن منایاگیا۔ نذیر فتح پوری نے متعدد اشعار اور تحریری بیانات کے ذریعہ اس مدرسہ سے وابستگی پر فخر کیاہے۔
فتح پور کا ایک اور اہم تعلیمی ادارہ آزاد سینئر سیکنڈری اسکول ہے، جو محلہ بیوپاریان میں پچھلے ساٹھ برس سے رواں دواں ہے۔ یہ اسکول ابتداً دینی مدرسے کی صورت میں عمل میں آیاتھا لیکن ترقی کرتے کرتے سینئر سیکنڈری اسکول میں تبدیل ہوگیا۔ محلہ بیوپاریان ہی میں ایک مدرسہ لڑکیوں کی تعلیم کی غرض سے قائم کیا گیاجو مدرسہ البنات فاطمۃ الزہرہ کے نام سے مشہور ہے۔اس مدرسے میں بقولِ مؤلف میٹرک تک تعلیمِ نسواں کا انتظام ہے۔ تعلیمی اداروں کے تذکرے کے بعد ریگستان کے جہاز یعنی اُونٹ کاذکرمؤلف نے بڑے ہی اختصار سے کیا ہے اور اُونٹ کی جفاکشی اور وفاداری ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مشہور و معروف شخصیات سے قطع نظر غیر معروف اشخاص نے بھی تاریخ میں کارنامے انجام دئے ہیں، چنانچہ فتح پور میں بعض ایسے اشخاص بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اس خطّے کی ترقی اور فلاح و بہبودکے لیے اپنی خدمات انجام دیں، ایسے حضرات میں بعض راہیِٔ ملک عدم ہوچکے ہیں اور کچھ بقیدِ حیات ہیں اور فتح پور میں روحِ رواں کا درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر مؤرخین نے اس قسم کے غیر معروف اشخاص کے ذکر سے صرفِ نظر کی ہے لیکن نذیرؔ فتح پوری بڑے ہی سعادت مند ہیں کہ انہوں نے ایسی شخصیا ت کا بہ نفسِ نفیس ذکر کیاجنہوں نے سماجی اور سیاسی طورپر فتح پور کی فلاح و بہبود کے لیے جی توڑ کوششیں کیں لہٰذا انہوں نے مرحوم عبدالغفار خاں پڑھیار، مرحوم اصغر علی غلام رسول خاں جوڈ، عبدالستّار خاں پڑھیار، محمد فاروق قریشی، مرحوم حاجی وزیر صاحب دھوبی، حکیم عثمانی صاحب دھوبی، مرحوم عبدالغنی وکیل، مولوی عبدالسمیع، شہر قاضی رضامحمد، مرحوم حاجی حسین خاں جوڈ، مستان بابا، حاجی نور خاں بھوان، بہادر خاں لنگا، مرحوم یاسین خاں پڑھیار، مرحوم قاضی رحمت اللہ، مرحوم دین محمد جرّاح،مرحوم اصغر بھوان، محمد یونس بھوان، اصغر محمد خاں ٹھیکیدار، قاسم خاں موٹل، بابو پہلوان، محبوب خاں دیوڑا اور شوکت علی جوڈ کاتذکرہ کرکے یہ ثابت کردیاکہ انہیں اپنی جائے پیدائش سے کتنی محبت ہے، صحیح معنوں میں،ایساکرکے انہوں نے سرزمینِ فتح پور کاحق ادا کردیاہے۔
سخت ناانصافی ہوگی اگر نذیر فتح پوری کی محنت، لگن، تحقیق، تفتیش، تلاش، جستجو، اور تگ ودو کی داد نہ دی گئی، سنجے گوڈ بولے نے کتنا سچ لکھاہے کہ:
"Tarikh wa Tazkira-e-Fatehpur Shekhawati" is associated with Five hundred years Literary history of Fatehpur Shekhawati, Rajasthan. This is the first book in Urdu of its kind which is focussing poets of Fatehpur including Akbar's wife Taj Kawitri"
اس ذیل میں راقم الحروف بھی سنجے گوڈ بولے کا ہم خیال ہے۔
حوالہ جات:
(۱)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۹، نذیر فتح پوری، اسباق پبلی کیشنز پونہ ۲۰۰۳ء
(۲)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۳۳
(۱)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۴۷
(۲)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۴۸
(۱)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۵۰، نذیر فتح پوری
(۲)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۵۷،۵۶، نذیر فتح پوری
(۱)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۵۸، نذیر فتح پوری
(۲)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۶۰، نذیر فتح پوری
(۱)’’تاریخ و تذکرہ فتح پور شیخاواٹی‘‘ صفحہ۶۱، نذیر فتح پوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تاج بی بی فتح پور کے پانچویں نواب دیوان فدن خان کی بیٹی تھی۔۔۔فدن خان نے اپنی بیٹی
تاج بی بی کو اکبر(بادشاہ)سے بیاہ دیا۔۔۔تاج بی بی کو شعروسخن سے خاص دلچسپی تھی،وہ خودبھی
شعر کہتی تھی۔۔۔ڈاکٹر اودے شنکر شری واستو نے اپنی ہندی کتاب’’مدھیہ یوگین ہندی کے صوفی
مسلمان کوی‘‘میں تاج کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور بابا فریدسے منسوب اس دوہے کو تاج کی
تخلیق بتایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس دو نیناں مت کھائیو،پیا دیکھن کی آس صفحہ ۱۴۵
مَرنے سے پہلے تاجؔ نے یہ دوہے کہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریتم بسے پہاڑ پر ، ہم جمونا کے تیر اب کو ملنو کٹھن ہے ، پائن پڑی زنجیر
نگر آگرہ میں رہے،گری پر بسے موناتھ توروں زنجیر جوبھ سوں،میں پریتم کے ساتھ ‘‘
(تاریخ و تذکرۂ فتح پور شیخاواٹی تصنیف و تالیف نذیر فتح پوری
صفحہ نمبر ۵۸،۵۹)