ڈاکٹر صدیق شبلی(اسلام آباد)
اپنا گریباں چاک‘اردو میں شائع ہونے والی شایدپہلی با تصویر خود نوشت ہے۔اسے باتصویر کہنے سے بھی حق ادا نہیں ہوتا کیونکہ باتصویر کتابوں میں کہیں کہیں کوئی فوٹو گراف بھی آجاتا ہے۔لیکن اس کتاب میں جس اہتمام کے ساتھ تصاویر شامل کی گئی ہیں اس کے پیشِ نظراسے ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحریری وتصویری خود نوشت سوانح عمری کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔کتاب کل تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔پیش لفظ اور خود کلامی ان کے علاوہ ہیں۔کتاب کے آخر میں سو سے زیادہ تصاویر یکجا کر دی گئی ہیں اور انہیں زمانی عتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔یہتصویریں ڈاکٹر صاحب کی جسمانی و ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کے اشواق واذواق پر بھی ر وشنی ڈالتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب جس انداز سے سوانح عمری میں خود کو پیش کرنا چاہتے تھے وہ ان تصویروں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں تھااس لیے کتاب کے اس حصے کواس کا چودھواں باب کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اردو شاعری میں دامن وگریبان کا چاک ہونا معمول کی بات ہے اور یہ اکثر چاک ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی سوانح عمری میں یہ اتفاق شاید پہلی بار ہوا ہے۔
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے
مرزا غالب اس عمل کو حالات کے جبر کے خلاف رد عمل قرار دیتے ہیں،وضع احتیاط سے ان کا دم رکنے لگتا ہے تو انہیں گریبان چاک کرنے کاخیال آتا ہے۔دوسری طرف علا مہ اقبال اپنی فعالیت اور اپنے جنون کی ہمہ گیری میں اپنے گریبان کے ساتھ ساتھ دامنِ یزداں چاک کرنے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں لیکن ڈاکٹر جاوید اقبال صرف اپنے گریبان تک محدود رہے ہیں۔’’اپنا گریبان چاک‘‘ کسی سوانح عمری کے لیے خاصا چونکا دینے والا عنوان ہے اور یہ قاری کی بہت سی توقعات کو جگاتا ہے۔ مگر اس کتاب میں سنسنی خیز انکشافات ہیں نہ عبرت انگیز اعترافات، معمولی نوعیت کے چند بے ضرر اور معصوم سے اعترافات کی طرف اشاروں سے قاری نہیں چونکتا،اپنا گریباں چاک کرتے ہوئے بھی مصنف نے وضع احتیاط کی پاس داری کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ اردو میں خود نوشت سوانح عمری کی روایت اس لیے پروان نہیں چڑھی کیوں کہ یہاں خوئے غلامی میں پختہ لوگوں میں خاکساری اور فدویت بہت زیادہ ہے اور یہ صنف خود نمائی کا تقاضا کرتی ہے۔اس لیے یہ خاکساروں اور فدویوں کے بس کا روگ نہیں۔ڈاکٹر صاحب کے اس خیال سے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ خود نو شت کے محرکات میں خود نمائی تنہا محرک نہیں ہے۔ اردو کا دامن آپ بیتیوں بلکہ ایسی آپ بیتیوں سے خالی نہیں ہے جن میں خود نمائی اور خود عظمتی اپنے عروج پر نظر آتی ہے ۔جوش صاحب نے ’’یادوں کی بارات‘‘ میں اپنی خاندانی وجاہت کا خوب خوب ڈھنڈورا پیٹا ہے۔قرۃ العین حیدر نے اپنے سوانحی ناول’’کار جہاں دراز ہے‘‘ میں اپنے خاندان کی تجلیل میں سارا زورِ قلم صرف کر دیا ہے۔اور اس کے لیے خاندان سے باہر کی بعض شخصیتو ں کی تضحیک سے بھی دریغ نہیں کیا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کو خود نمائی اور خود ستائی کی ضرورت پڑی اور نہ انہوں نے اس کی کوشش کی۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزازات و کمالات کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچ کر اپنی عظمت کا صور نہیں پھونکا۔ڈاکٹر صاحب نے ادب کا مطالعہ بھی کیا اور وہ ادب کی تخلیق میں بھی مصروف رہے ہیں۔اس زمانے میں ان کی توجہ ڈرامہ نگاری کی طرف رہی لیکن وہ صرف ادیب نہیں ہیں۔انہیں نظری و عملی سیاست سے دلچسپی ہے۔وہ قانون کے پیشے سے کئی حیثیتوں سے وابستہ رہے ہیں۔فلسفہ ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔اقبالیات بھی بوجوہ ان کاایک اہم موضوع مطالعہ ہے۔ان سب کی جھلک ان کی آپ بیتی میں موجود ہے۔انہوں نے آپ بیتی کے حدود کو بڑی وسعت بخشی ہے،
لیکن اس سے ان کی خود نوشت کی گرانباری میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ آپ بیتی علمی مباحث کی عموماً متحمل نہیں ہو سکتی۔مصنف نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مختلف ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں‘کانگرسوں‘سیمیناروں اور اجلاسوں میں صرف کیا ہے۔کوئی سال شاید ہی ایسا ہو جس میں وہ بیرونی سفر پر نہ گئے ہوں ۔انہوں نے تو ایک سال میں چار چار ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔بین ا لاقوامی قوانین، انسانی حقوق،اسلام،اسلامی دنیا اوراسے درپیش مسائل اور اقبالیات کے موضوعات پر انہیں لیکچر دینے یا مقالہ پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ڈاکٹر صاحب نے ان اجلاسوں میں اپنے بحرِعلمی اور بلند پایہ افکار سے حاضرین کو متاثر کیا اور انہیں بین الاقوامی سطح پر بڑی پزیرائی ملی۔اسطرح انہوں نے پاکستان کے غیر رسمی ثقافتی سفیر کے طور پرملک کا نام روشن کیالیکن جب حکومت نے یہ عہدہ باضابطہ طور پر پیش کیا توانہوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کرلی اس کے باوجود وہ یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں البتہ اب انہیں بڑھاپے اور کمزور صحت کا احساس ہونے لگا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کو سیاحت کاشوق شروع سے رہا۔نئی گاڑیوں کی خریداری بھی ان کے اسی شوق کی مظہرہے ۔ان کے پائے کاجہاں گردپاکستان میں شاید ہی ملے۔وہ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں پانچ سال انگلستان میں مقیم رہے۔انہوں نے اسی دوران یورپ کے اکثر ممالک کی سیرکی۔اس کے بعد کانفرنسوں میں شرکت کے لیے انہوں نے طویل مسافتیں طے کیں۔انہوں نے بے شمار سفر کیے لیکن سفرنامہ لکھنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ بیتی میں ان سفروں کی روداد بڑے سر سری انداز میں بیان کی ہے۔
علامہ اقبال قرطبہ گئے ۔انہوں نے مسجدِقرطبہ دیکھی اور اپنے احساسات و تاثرات کومسجدِقرطبہ جیسی لازوال نظم کی صورت میں پیش کر دیا۔ کلامِ اقبال کے عربی مترجم اور پاکستان میں مصر کے ایک سابق سفیر ڈاکٹر عزام بے نے ایک جگہ لکھا ہے۔’’علامہ اقبال کا مسجدِ قرطبہ میں جاناایک بہت بڑا واقعہ ہے۔عالمِ اسلام کو ایک ایسے شاعر کا انتظار ہے جو مسجدِ قرطبہ میں اقبال کے دل و دماغ کی جملہ کیفیتوں کو اپنے توانا تخیل کی مدد سے گرفت میں لا کرایک شاہکار تخلیق کرے۔‘‘اقبال کی پیروی میں ڈاکٹر جاوید اقبال کو قرطبہ جانے کا اتفاق ہوالیکن انہوں نے مسجد میں اپنی حاضری کی کیفیت کو آپ بیتی میں چند سطروں میں نبٹا دیا۔قونیہ میں مولانا روم کے مزار کی زیارت کا ذکر بھی ایسے ہی کیا گیا ہے،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو بیانیہ سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ان کے اصل جوہر تجزیے میں
کھلتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اقتدار کے ایوانوں کے ہمیشہ مہمانِ عزیز رہے ہیں۔اکثر اہم موقعو ں پر انہیں وہاں مدعو کیا جاتا رہا ہے۔حکومت سول ہو یا فوجی‘مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی،سب نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی قدر افزائی کی اور ان کی د لداری کی کوشش کی۔ انہیں سرکاری تقریبات میں عزت دی،حکومتی وفود میں مندوب کی حیثیت سے شامل کیا۔ڈاکٹر صاحب نے عملی زندگی کا آغاز وکالت سے کیا۔وہ قانون کی تدریس بھی کرتے رہے۔لاہور ہائی کورٹ کے جج اور اسی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے اور سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔انہوں نے آپ بیتی میں عدالتی نظام اور اس کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔وہ اپنی عدالتی خدمات سے بڑی حد تک مطمئن نظر آتے ہیں۔
جاوید اقبال سیاست کے ذریعے قوم کی خدمت کا عزم لے کر عملی زندگی میں آئے تھے لیکن اس میں انہیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی،اگرچہ ان کے زائچہ ساز منجم نے ان کے کسی ریاست کے وزیر اعظم ہونے کی پیش گوئی کی تھی لیکن ان کا نام صرف ایک بار نگران وزیراعظم کے عہدے پرصرف زیرِغور آیا اور وہ اس منصب پر فائز نہیں ہوسکے البتہ وہ سینیٹ کے رکن ضرور منتخب ہوئے لیکن پارٹی پالیٹکس کی وجہ سے وہ سیاست میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکے۔انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ ان کے مشوروں کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھا گیا۔دراصل جاگیردارانہ اور
سرمایہ دارانہ ماحول میں ہمارے ہاں وہ سیاسی کلچر ہی فروغ نہیں پاسکاجس میں کوئی ذہین اور پڑھا لکھا شخص اپنا مقام بنا سکے۔سیاست کے معاملے میں جاوید اقبال د ل گیر ہی رہے۔
ڈاکٹر صاحب کو دکھ ہے کہ ساری دنیا میں وہ اپنی ذات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔لیکن پاکستان میں فرزندِ اقبال کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں لڑکپن میں اس نسبت اور اس کی اہمیت کا احساس نہیں تھا،جوانی میں وہ اپنے پدرم سلطان کے جذبے سے قبول کرتے رہے لیکن اب وہ صرف اس حوالے کے ذریعے پہچانے جانے پر آمادہ نہیں ہیں وہ اپنی شناخت اپنے حوالے سے چاہتے ہیں۔
ارادت مندوں کا کہنا ہے کہ جہاں اس صورتِ حال کو انہوں نے اتنی مدت تک گوارہ کیا ہے تو اب اس کے خلاف ردِعمل کی کیا ضرورت تھی ،وہ جاوید اقبال کے سلسلے میں اقبال کی محبت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں،لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔یہ ایک جینئس کاذاتی مسئلہ ہے اور وہی اس کا احساس کر سکتا ہے۔عام لوگ تو اس مسئلے اور اس کی نزاکت کاشاید ہی ادراک کرسکتے ہوں۔ایک شخص جس کے مقام و مرتبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہوااور جسے خودی کا درس ورثے میں ملا ہووہ اپنی خودی سے دستبردار ہو کرصرف فرزندِ اقبال ہونے پر کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے اقبال جیسے تناور درخت کے سائے سے نکل کر اپنا مقام بنانے کی کوشش کی ہے۔ہر عظیم شخصیت کی اولاد اس مسئلے سے دوچار ہو تی ہے لیکن اس اعلان واظہار کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔
علا مہ اقبال نے بر صغیرکے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کے حصول اور یہاں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے ذہنی طور تیار کیا۔جدو جہد کا دور جوش و خروش کا زمانہ ہوتا ہے۔اس میں بعض مسائل کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا،جب یہ دور ختم ہو جاتا ہے تو اصل مسائل اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے آپ بیتی میں جوباب’’دوسرے خط‘‘کے عنوان سے لکھا ہے اس میں فکرِاقبال کے حوالے سے بعض ایسے مسائل اور انکے مضمرات پر دوبارہ نظر ڈالی ہے اور نئی صورتِ حال میں ان کا تجزیہ کیا ہے۔ان میں دو قومی نظریہ،اسلامی ریاست،اس کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ اور اس میں نفاذِاسلام،اجتہاد،اسلامی جمہوریت اور روحانی جمہوریت جیسے موضوعات شامل ہیں۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بعض ذہنی تحفظات کااظہار بھی کیا ہے۔بعض ارادت مندوں نے اسے اقبال سے ڈاکٹر جاویداقبال کے اختلاف پر محمول کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے یہ سوال اٹھا کر دعوتِ فکر دی ہے۔انہوں نے اپنی توضیحات کے ذریعے علامہ اقبال کے نقطہء نظر کو تقویت پہنچائی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندھی عقیدت بھی تفہیمِ اقبال کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیے دیدن دیگر آموز کی ضرورتہے۔
’’اپنا گریبان چاک‘‘ ایک منفرد نوعیت کی خود نوشت ہے۔یہ دلچسپ سے زیادہ فکر انگیز ہے۔یہ ہمارے فکری رویوں اورارادتوں کے بارے کئی معنی خیز سوال اٹھاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کربھی وہ بات کہنے کی کوشش کی ہے جسے وہ حق سمجھتے ہیں۔اردو میں ایسی سوانح عمری کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔