نذر خلیق(خانپور)
کب اس کو تھا اندازہ
زخم مرے دل کا
اب تک ہے تروتازہ
وہ عدل کٹہرے تھے
بولنے کو چھوڑیں
سوچوں تک پہرے تھے
سب صدق حوالے ہیں
دور بھی جانا ہے
اور پاؤں میں چھالے ہیں
جس کو دل سے چاہا
اس نے ہمیں دل سے
بالکل ہی بھلا ڈالا
اس حسن کا منظر ہے
عشق سبق سارا
ہم کو بھی از بر ہے