مرتضیٰ اشعرؔ(ملتان)
تھے پھول تپائی پر
سائن کرنے ہیں
اشکوں سے جدائی پر
کیوں آس رَکھی برسوں
آئے نہ پردیسی
اب سوکھ گئی سرسوں
دل ڈول گیا اس کا
غصے سے ساجن
کچھ بول گیا اس کا
بجلی تھی کہیں کڑکی
خوف سے کانپ گئی
نازک سی اک لڑکی
قسمت میں سزا تھی جب
مل کے بچھڑنا تھا
کیا نیر بہائیں اب