احمد کمال حشمی
(کانکنارا۔مغربی بنگال)
زخموں پہ نمک رکھ دے
درد لگے پیارا
اس دل میں کسک رکھ دے
کب پیار نہیں کرتا
حسن ہے شرمیلا
اظہار نہیں کرتا
دل ہار کے بیٹھا ہوں
تیری محبت میں
من مار کے بیٹھا ہوں
پردیس میں ہے ساجن
فون، نہ خط ایا
گھبرانے لگا ہے من
ماہیے:
سپنوں میں ہوتے ہیں
جان کے دشمن تو
اپنوں میں ہوتے ہیں
شہروں میں بستے ہیں
سانپ نہیں انساں
انساں کو ڈستے ہیں
غم بھر گیا سینے میں
نشہ عجیب ہوا
اشکوں کو پینے میں
ہم آ گئے گھیرے میں
چھوڑ کے اجیاری
بیٹھے ہیں اندھیرے میں
تقدیر بدلنا ہے
رستہ کھو گئے ہم
منزل کو چلنا ہے