ترنم ریاض
(دہلی)
آنکھوں کی چمک روٹھی
یاد میں روتی رہی
ہونٹوں کی گئی سُرخی
گجراہے چنبیلی کا
تیرے بغیر لگے
جی کیسے اکیلی کا
دل درد نہ سہہ پائے
جینا بغیر ترے
کوئی آکے سکھاجائے
تجھے دل میں سمویاہے
نام ترا لکھ کر
لاکٹ میں پرویاہے
اک جھلک کو ترسے جی
حال جُدائی کا
اُسے جاکے کہے کوئی
یہ کیسی کہانی ہے
سچ کا محافظ ہی
اب جھوٹ کا بانی ہے
کِس سوچ کابندہ ہے
علم تو رکھتا ہے
پر عقل کا اندھا ہے
انصاف تو روٹھا ہے
ایسے لگاجیسے
رشوت سے چھوٹا ہے
بھیگی سی پھواروں کا
دل ہے مرا پیاسا
ساون کی بہاروں کا
کیا دن میں ہی خواب آیا
رات تو باقی ہے
خوابوں میں جواب آیا