ملنے کی بشارت ہو
ارضِ مدینہ کی
اک بار زیارت ہو
یہ عرش کا زینہ ہے
مدنی ماہی کا
جو شہر مدینہ ہے
جب خوشبو آتی ہے
روضۂِ اقدس کی
مجھے یاد ستاتی ہے
فرمان اپناتے ہیں
ارضِ مدینہ میں
کینے کو مٹاتے ہیں
ہر سمت اُجالے ہیں
مدنی ماہی کے
اَن گنت حوالے ہیں
پنجاب رنگ
اب کب یہ ضروری ہے
سچ کہنا بھی تو
وقتی مجبوری ہے
﴿……﴾
گاؤں کے پنگھٹ میں
آگ مچے جیسے
گوری کے گونگھٹ میں
﴿……﴾
جُز فرقت سہتی ہے
کل سے مِلنے کو
بے چین سی رہتی ہے
﴿……﴾
تانبے کا پیسا ہے
تب سے اَب تک تُو
ویسے کا ویسا ہے
﴿……﴾
نہ رہ سناّٹے میں
قسم زمانے کی
انسان ہے گھاٹے میں
﴿……﴾
تابندہ سِتارہ ہوں
قد ر کرو میری
میں وقت تمہار ا ہوں