تابش کمال(چکوال)
سوال ہونٹوں پہ کانپتے تھے
کلاس میں کوئی سوچ ابھرتی تو ماسٹر کی چھڑی اچانک ہی سنسناتی
ہم ایک دُوجے کو چٹکیاں کاٹ کر اُٹھاتے
کبھی تو سانسوں کا غیر ہموار سلسلہ بات کا توازن بگاڑ دیتا
کبھی حروف ایک دم خیالوں کو قطع کرتے
جو فقرہ فقرہ الجھ رہے تھے
ہمیں ان الفاظ کوپکڑنا بہت ہی دشوار ہو گیا تھا
ہماری سانسوں میں رعشہ
ٹانگوں میں لرزہ
آنکھوں میں تیرگی تھی
اور اب جو ہم لفظ جانتے ہیں
اسی طرح سے نہ ہونے ہونے کے درمیاں ہیں
سوال ہونٹوں پہ کانپتے ہیں