پروفیسر آفاق صدیقی(کراچی)
وہ جو گل گوں سی اک روشنی
ذہن و دل کے دریچوں کا پندار تھی
آج حسرت کشیدہ شب و روز کا
پیکر درد ہے
نیم جاں فاختہ
جانے کب تک یونہی
شاخ زیتون کی
اپنے کام و دہن میں سجائے ہوئے
امن عالم کے خوابوں میں کھوئی رہے
جا نے کب تک چھٹے
بے یقینی کی چاروں طرف
یہ جو چھائی ہوئی گردہی گرد ہے
خوف و دہشت سے
مہر و وفا کا لہو سرد ہے
شاخ زیتون بھی زرد ہے