اوشا بھدوریہ(بھوپال)
ڈوبنے والے ابھرنے کا ہنر بھول گئے
کسی ساحل پہ اترنے کا ہنر بھول گئے
زندگی اتنی محبت سے عطا کی تو نے
ہم ترے نام پہ مرنے کا ہنر بھول گئے
آندھیاں چلتی ہیں بارش بھی صدا دیتی ہے
زرد پتے بھی بکھرنے کا ہنر بھول گئے
لمحہ لمحہ تجھے محسوس کیا ہے جب سے
رنگ تصویروں میں بھرنے کا ہنر بھول گئے
ہاتھ مجبوری نے جس دن سے رکھا ہے دل پر
خواب آنکھوں سے گزرنے کا ہنر بھول گئے
راستہ اب نہیں دیتا انہیں دریا کوئی
قافلے پار اترنے کا ہنر بھول گئے
زہر ٹپکا کے گیا ہے کوئی عرضِ جاں پر
ہم تو اب بات بھی کرنے کا ہنر بھول گئے
زندگی اشکوں کا خاموش سفر ہے اوشاؔ
چل پڑے ہیں تو ٹھہرنے کا ہنر بھول گئے