سعید روشن(کویت)
بنتے ہوئے حباب تہہِ آب دیکھئے
ڈوبا ہے کون یہ سرِ گرداب دیکھئے
منظر یہاں نہ اب کوئی شاداب دیکھئے
کچھ بھی بچا نہیں پسِ سیلاب دیکھئے
جب بھی چھِڑی ہے بات ترے حسن کی وہاں
مجھ سے خفا ہوئے مِرے احباب دیکھئے
ہوتی کہاں سے نرم یہ دل کی زمین بھی
سوکھا پڑا ہے آنکھ کا تالاب دیکھئے
پھیلا ہے نور صبح کی پہلی اذان سے
گونجے بدن کے منبر و محراب دیکھئے
اتنا نہ کھینچئے یہاں سانسوں کے تار کو
جائیں گے ٹوٹ ساز کے مضراب دیکھئے
روشنؔ رہے گا نام ترا بھی ورق ورق
جب بھی رقم کریں گے نیا باب دیکھنا