مرتضیٰ اشعر(ملتان)
کیا پتہ اب منتظر آنکھوں میں بینائی نہ ہو
کیا خبر ہم دستکیں دیں اور شنوائی نہ ہو
کیا پتہ بارانِ رحمت کا گذر محلوں سے ہو
کیا خبر کچّے مکانوں پر گھٹا چھائی نہ ہو
کیا پتہ اپنوں میں کوئی رنگ میرا ناں ملے
کیا خبر وہ اجنبی ہو کر مِرا آئینہ ہو
کیا پتہ چہرے سلگتے ہوں ابھی تک دھوپ میں
کیا خبر شبنم شگوفوں پر اُتر آئی نہ ہو
کیا پتہ لوٹیں تو سوچا ہو بہت کچھ کہنے کا
کیا خبر وہ سامنے آئے تو گویائی نہ ہو
کیا پتہ بچھ جائیں اشعرؔ رستہ رستہ دائرے
کیا خبر حاصل سفر کا آبلہ پائی نہ ہو