نسرین نقاش(سری نگر)
مجھ سے رہتا ہے وہ بیزار بڑی مشکل ہے
کیسے ہو عشق کااظہار بڑی مشکل ہے
کیسے گاؤں میں محبت کے سریلے نغمے
ساز کا ٹوٹ گیا تار بڑی مشکل ہے
عقل کہتی ہے کہ کانٹوں بھرے رستے پہ نہ چل
دل کے ہونٹوں پہ ہے انکار بڑی مشکل ہے
دیکھتا تک نہیں نفرت سے بھی میری جانب
جس کا یہ دل ہے طلبگار بڑی مشکل ہے
نہ تو پتوار ہی موجود نہ مانجھی کا پتہ
ناو اب کیسے لگے پار بڑی مشکل ہے
اس سے پہلے کہ پہنچتے یہ قدم منزل پر
راہ میں کھنچ گئی دیوار بڑی مشکل ہے
چھوڑنا بھی اُسے مشکل اُسے پانا بھی محال
کشمکش میں ہے میرا پیار بڑی مشکل ہے
کیا قیامت ہے کہ نسرینؔ وہ ہوتا ہی نہیں
عرضِ دل سننے کو تیار بڑی مشکل ہے