پروفیسر محمد لطیف (بہاول پور)
کنج گمنام کو جی چاہتاہے
اب تو آرام کو جی چاہتا ہے
جیسے آغاز کیا تھا ہم نے
ویسے انجام کو جی چاہتا ہے
اک جواں صبح کو دل ترسے ہے
اک حسیں شام کو جی چاہتاہے
حال بے کیفی ایام نہ پوچھ
کب سے اک جا م کو جی چاہتاہے
پارسا لاکھ بنے انساں کا
لغزش گام کو جی چاہتا ہے
عشق مجبور ہے ورنہ کس کا
سنگ و دشنام کو جی چاہتاہے
وقت آتا ہے کہ دشمن سے بھی
ربط و پیغام کو جی چاہتاہے
کب سے بے حر ف بیاض دل ہے
کشف و الہام کو جی چاہتاہے
تلخیء زیست کے با وصف لطیف
طول ایام کو جی چاہتاہے