پروفیسر سرور انجم(ہارون آباد)
گرہ کشائی دست جنوں کے کیا کہنے
فسوں طرازی چشم فسوں کے کیا کہنے
جو پا لیا اسے اپنی طلب سے کم سمجھا
اے میرے دل ترے شوق فزوں کے کیا کہنے
روش روش گل و گلزار کو صباحت دی
مرے شہید ترے رنگ خوں کے کیا کہنے
متاع عقل کو کہتا ہے کون بے مصرف
پہ قدرو قیمت جذب دروں کے کیا کہنے
بٹھا کے سر پہ یہ پھر منہ کے بل گراتی ہے
فریب کاری دنیائے دوں کے کیا کہنے
پہاڑ توڑ کے پھر اپنے سر کو پھوڑ لیا
دیار عشق کے اس سر نگوں کے کیا کہنے
گدائے کوچہء الفت ہے دیکھو انجم بھی
خراب و خستہ و خوار و زبوں کے کیا کہنے