ارشد جمال حشمی(کانکنارا)
نہ تو منزل ہے نہ گھر ہے دنیا
فقط اک راہگذر ہے دنیا
کارخانہ یہ امیدوں کا ہے
آرزوؤں کا نگر ہے دنیا
ایک دھوکہ ہے یہ سب رونق و رنگ
ذرا سوچو تو کھنڈر ہے دنیا
دل نہیں دیکھتی منہ دیکھتی ہے
کس قدر تنگ نظر ہے دنیا
جو گیا یاں سے تہی دست گیا
کسی کنجوس کا در ہے دنیا
تیری مرضی جسے چاہے چن لے
اِس طرف میں ہوں اُدھر ہے دنیا
میں چلا تھا تو مرے ساتھ ہی تھی
رہ گئی جانے کدھر ہے دنیا