رؤف خیر(حیدرآباد۔دکن)
دل رکھتے ہیں سینے میں جو لاوا نہیں رکھتے
وہ درد تو رکھتے ہیں مداوا نہیں رکھتے
مکھی کا بھی اس بُت پہ چڑھاوا نہیں رکھتے
ہم جاں سے گزرنے کا ڈراوا نہیں رکھتے
ہر موڑ پہ اوروں کے لئے اور ہیں مولا
ہم تیرے سوا ملجا و ماویٰ نہیں رکھتے
یلغار تو ہوتی بہت دیدہ و دل پر
ہم ذہن میں کچھ تیرے علاوہ نہیں رکھتے
میدان بہت شاہ سواروں کے لئے ہیں
جو حیلۂ اسباب و کجاوا نہیں رکھتے
شہکار ہیں کیا کیا ہنرِ کوزہ گری کے
اور خام پڑے ہیں کوئی کاوا نہیں رکھتے
ایمان یہاں کوئی کسی پر نہیں لاتا
ہم بھی تو سند ہونے کا دعوا نہیں رکھتے
نکلیں وہ ذرا کوچۂ سربند انا سے
کب ہم بھی درِ صدق و صفا وا نہیں رکھتے
وہ لوگ سمجھ لیتے ہیں صحرا ہی کو سب کچھ
جو لوگ سمندر کا بلاوا نہیں رکھتے
خوش ہیں تو ہیں خوش خیرؔ خفا ہیں تو خفا ہیں
ہم حرفِ تذبذب کا چھلاوا نہیں رکھتے