خورشید ناظر(بھاولپور)
مرا اک بار پھر گھر جل رہا ہے
ابھی ہجرت کا موسم چل رہا ہے
ہے منزل کالے کوسوں دور لیکن
یہ دن ہے کہ ابھی سے ڈھل رہا ہے
لب اظہار پر کس طرح لاؤں
وہ غم جو دل کے اندر پل رہا ہے
ہو حملہ شاید اب دشمن رتوں کا
جو حملہ مدتوں سے ٹل رہا ہے
نہیں ناظر ادھر تم ہی پریشاں
ادھر وہ شخص بھی بے کل رہا ہے
**
خورشید ناظر
بستیوں میں خامشی ہے آج کل
چاندنی بھی رو رہی ہے آج کل
زرد پودے، زرد پتے، زرد پھول
یہ ہوا کیا چل پڑی ہے آج کل
بارشیں جب بھی ہوئیں جوہڑ بھرے
تھا یہی پہلے، یہی ہے آج کل
کوئی در، کوئی دریچہ وا نہیں
ہر طرف اک بے رخی ہے آج کل
زندگی ہے جیتے جی مرنے کا نام
زندگی کب زندگی ہے آج کل
ایک کوہ درد ہے مجھ پر محیط
میں ہوں اور اک بے بسی ہے آج کل
کس طرح ناظر اندھیرے دور ہوں
شب سے سب کی دوستی ہے آج کل