ولی بجنوری(دہلی)
سامنے اک اَن دیکھا منظر کیوں رہتا ہے
سوکھی آنکھوں بیچ سمندر کیوں رہتاہے
ہنستے بستے لوگوں میں رہتا ہوں پھر بھی
اک سنّاٹا میرے اندر کیوں رہتا ہے
مجھ سے دل کے زخم کہا کرتے ہیں اکثر
سبز ہوا کا موسم سَر پر کیوں رہتا ہے
پیاسا اک صحرا ہے میری ذات کے اندر
پھر یہ بہتا دریا باہر کیوں رہتا ہے
وہ آئے تو اُس سے ہی پوچھیں گے اک دن
چاند اکیلا جانے شب بھر کیوں رہتا ہے
**
ولی بجنوری
بستی میں میری پر توِ زر تاب اور لا
اے مہرباں فلک مرے سیلاب اور لا
اک تازہ تازہ نیند ابھی اور دے مجھے
تعبیرِ جاں! میرے لئے کچھ خواب اور لا
تپتی رُتوں میں چل کے ترے پاس آئے ہیں
پیاسیں ہمیں بلا کی ہیں زہر اب اور لا
جانا ہے مجھ کو اور تہِ آب ایک بار
اک غوطہ زن مرے لئے مہتاب اور لا
شمعیں جلائے بیٹھے ہیں ہم لوگ کچھ نئی
کاجل سی رات اب نئے احباب اور لا