صبا اکبر آبادی(مرحوم)
اے ربِ کائنات میں عصیاں شعار ہوں
ظاہر میں پُر سکوں ہوں مگر بیقرار ہوں
دولت سکونِ قلب کی سب ہو چکی تباہ
اُٹھتی ہے بس ترے ہی کرم کی طرف نگاہ
واپس چمن میں بھیج دے گزری بہار کو
دولت ملے سکوں کی دلِ بے قرار کو
معلوم ہے مجھے کہ یہ دنیا ہے بے ثبات
اک وقفہء قلیل ہے کہئے جسے حیات
پوری ہوں جتنی اُتنی ابھرتی ہیں خواہشات
بس ایک تیرا نام ہے سر مایہء نجات
تسکیں کی آرزو ہو کہ آرام چاہئے
ہر حال میں زباں پہ ترا نام چاہئے
پیدا ہوئے تو جانِ سماعت ہے تیرا نام
آیا جو ہوش وردِ تلاوت ہے تیرا نام
جب آگیا شباب تو قوت ہے تیرا نام
ہنگامِ مرگ،زیست کی لذت ہے تیرا نام
کیفیتیں عجیب اِسی نام سے ملیں
جو نعمتیں ملیں وہ ترے نام سے ملیں