میری اپنی تخلیقی و دوسری ادبی مصروفیات، علالت کے باعث کچھ کچھ متاثر ہونیلگی ہیں۔میں نے اپنے بعض پراجیکٹس کو بہتر طور پر مکمل کر لیا ہے تو بعض پراجیکٹس تکمیل کے لیے ابھی تک توجہ چاہتے ہیں۔مجھے ہمیشہ ایسے دوستوں کی ضرورت رہی ہے جو ادبی کاموں میں نہ صرف خود متحرک رہیں بلکہ مجھے بھی متحرک رکھ سکیں۔لیکن ہوتا عموماَ یہ ہے کہ دلی طور پر مخلص ہوتے ہوئے بھی سستی کے مارے دوست خود پر بے نیازی سی طاری کرکے اپنی طرح مجھے بھی سست کرنے لگتے ہیں۔میں اپنے ایسے تمام دوستوں کو آواز دیتا ہوں جو ادبی کاموں میں سستی کی زائیدہ بے نیازی کی بجائے پوری توجہ والی متحرک ادبی زندگی جی رہے ہیں اورجو میرے ساتھ چل کر مجھے مزید متحرک رکھ سکیں۔
اب پاکستان اور ہندوستان سے ڈاک خرچ ایک جیسا ہوش ربا ہو گیا ہے۔جتنی لاگت کسی بھی اشاعتی منصوبہ پر آتی ہے،اس سے زیادہ اس کی ترسیل پر خرچ ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں دوست احباب کا تعاون ہمیشہ جیسا ہی ہے۔دوچار دوست جو تعاون کر دیتے ہیں سو کر دیتے ہیں،باقی اتنا دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہے کہ انہیں جو کتاب یا رسالہ مل رہا ہے اس پر کتنی مالیت کے ڈاک ٹکٹ لگے ہوئے ہیں۔اس شمارہ کے بعد ان تمام احباب کی ٹھوس اور عملی تجاویز کا منتظر رہوں گا جو رسالہ کی اشاعت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔جن کی طرف سے کوئی دلچسپی نہ لی گئی،معذرت کے ساتھ ان سب کو رسالہ کا یہ آخری تحفہ ہوگا۔(اتنے لکھے کو کافی سمجھا جائے)۔کسی نے بھی دلچسپی نہ لی تو اسی کو آخری شمارہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اس کے لیے کسی پر الزام نہ ہو گا،بس یہ ڈاک خرچ کی زیادتی کا نتیجہ ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ شمارہ ۱۴کی اشاعت کے بعد صورت حال ایسی ہو گئی تھی کہ میں نے جولائی تا دسمبر ۲۰۱۰ء(شمارہ ۱۵) کی اشاعت موخر کرکے اسے جنوری تا جون ۲۰۱۱ء کے ساتھ ملا کر شائع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اللہ بھلا کرے کینیڈا اور انگلینڈ کے تین دوستوں کا جنہوں نے کچھ ہمت بندھائی اور مصطفی کمال پاشا صاحب کا کہ جنہوں نے مزید ہمت بندھائی اور نہ چھاپتے چھاپتے بھی جدید ادب کا شمارہ ۱۵اب چھپنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔
میں نے شروع میں جن متحرک دوستوں کے ساتھ کی خواہش ظاہر کی ہے،اس حوالے سے یہ واضح کرنا چاہوں گاکہ اگرچہ وسائل کی دستیابی اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے،لیکن میرا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ اگر تھوڑا سا ٹیم ورک ہو جائے اور جینوئن ادبی لوگ متحرک ہو کر حوصلہ افزائی کریں،مختلف امور میں ساتھ دیں تو نہ صرف ادبی منصوبے مکمل کرنے کی توفیق ملتی ہے بلکہ وسائل کی فراہمی کی بھی کوئی نہ کوئی صورت نکلتی چلی آتی ہے۔سو اب دیکھتے ہیں کہ جدید ادب کے معاملہ میں کتنے دوست کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
حیدر قریشی