نصرت ظہیر(دہلی)
روز اک ٹرین کی برتھ
اپنی آغوش میں لے کر مجھ کو
رات بھر محوِ سفر رہتی ہے
اور اک انجان سے اسٹیشن پر
صبح دم چھوڑ کے آجاتی ہے!
میں اس انجان سے ویران سے اسٹیشن پر
جس کا سگنل ہے کوئی اورنہ ٹکٹ کھڑکی ہے
اور نہ مسافر خانہ
ہر طرف ڈھونڈتا رہتا ہوں تمہیں
کسی چہرے کسی ملبوس میں تم مل جاؤ
اور لے جاؤ مجھے شہر کی آبادی میں․․․
میں، مگر بھیڑ میں تنہا ہی کھڑا رہتا ہوں
اپنے اسباب کے ساتھ
بوکھلایا ہوا مرجھایا ہوا
اور تم بھیڑ سے چہروں کی نکلتی ہی نہیں!
سارا دن یوں ہی چلا جاتا ہے․․․
آخراس ٹرین کی برتھ
پھر مرے سامنے آجاتی ہے
اور
پھر اپنے شکنجے میں جکڑ کر مجھ کو
لا کے واپس اسی کمرے میں پٹک دیتی ہے
جس سے کل رات مجھے لے کے چلی آئی تھی․․․