شِبہ طراز(لاہور)
نسیمہ موتیا کی شاخیں سنوارتے ہوئے اس کے پھولوں سے مخاطب تھی ۔۔
’’ مجھے پتہ تھا ضرور آئے گا ۔۔ آخر پیدا کیا ہے اسے میں نے ۔ میری محبتوں ، میری دیکھ بھال کا اتنا صلہ تو دینا ہی تھا اسے ۔۔۔ جیسے تُو۔۔ اپنی دیکھ بھال کے صلہ میں مجھے خوشبو دیتا ہے ۔۔۔ ‘‘
پھولوں نے ہنس کر اپنی خوشبو بھری پھونک اس کے چہرے پر پھینکی ۔۔۔ اور دل ہی دل میں دعا کی کہ اس بوڑھی عورت کی آنکھوں میں امید کی روشن ہونے والی کرن اسی طرح جگمگاتی رہے ۔۔۔
پھر وہ اپنے طوطے کے پنجرے کے پاس آ کھڑی ہوئی ۔ ہری مرچیں آدھی کھائی ہوئی پڑی تھیں ۔ طوطا خوشی سے ادھر اُدھر پھدک رہا تھا ۔ نسیمہ کو اپنی طرف متوجہ پا کر زور زور سے چیخنے لگا ۔۔۔ ’’ بلال آ گیا ۔۔۔دیکھو ۔۔۔ بلال آ گیا ۔۔۔ ‘‘ نسیمہ کے ہونٹوں سے ہنسی پھسلی اور طوطے کے پنجرے کی سلاخوں سے جھولنے لگی ۔ ۔ وہ اسے چیختا چھوڑ کر اپنے چھوٹے لیکن صاف ستھرے باورچی خانے میں چلی آئی، جہاں برتن اوپر تلے دبے ہوئے کڑوے کڑوے منہ بنا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ، کہاں وہ کشادہ گھر تھا جہاں وہ ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر خوبصورت شیشے کی الماریوں میں سجے ہوتے تھے اور آنے والے مہمانوں کی نظریں ایک دوسرے کو ستائشی انداز میں دیکھ کر ان کی قیمتوں کا اندازہ لگاتی تھیں اور کہاں یہ تنگ سا ، چھوٹا سا باورچی خانہ ہے جہاں وہ ایک دوسرے پر چڑھے پڑے ہیں ۔
نسیمہ کیا کرتی ۔۔۔ پچھلا گھر واقعی بہت بڑا تھا اور اس کے پائیں باغ میں نسیمہ نے قسم قسم کے پھل دار درخت اور پھول دار پودے لگائے ہوئے تھے ۔ اس کا سارا دن بہت مصروف گزرتا تھا ۔ بچے چھوٹے تھے ، سکول جاتے تو وہ اپنے پودوں کے نوزائیدہ بچے نکال نکال کر مختلف گملوں اور کیاریوں میں لگاتی ، گوڈی کرتی ، پانی دیتی ۔۔۔ پھل اور پھولوں کی کلیاں گنتی ۔۔ پھر کسی نے اسے ایک چکور تحفے میں دیا ۔ اس کے پاس پہلے بھی مختلف نسل کے چڑیوں اور طوطوں کے جوڑے تھے جن کو اس نے مختلف پنجروں میں اپنے باغ کے سایہ دار کونوں میں رکھا ہوا تھا ۔ اپنے بچوں کے آنے تک وہ پودوں اور پرندوں سے فارغ ہو چکی ہوتی تھی ۔ اسے ایک مرتبہ شوق چرایا کہ مور پالے۔ مور کے پر اسے بہت خوبصورت لگتے تھے ۔ موروں کے جوڑے کو اس نے باغ میں کھلا چھوڑ دیا ۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے کام کرتے ہوئے وہ موروں کا نظارہ جاری رکھتی ۔ بارشوں کے موسم میں کبھی کبھی جب مور اپنے پورے پر پھیلا کر ناچتا تو اس کا خود بخود شاعری کرنے کو جی چاہتا ۔۔۔۔ لیکن وہ اس میدان میں بالکل کوری تھی ۔۔۔ لکھنا تو دور کی بات وہ شاعری پڑھ بھی نہ سکتی تھی کیونکہ وہ ایک پُر امید ، خوش باش گرہستن عورت تھی جس کو طرح طرح کے کھانے پکانے اور میاں اور بچوں کے لاڈ اٹھانے کے علاوہ کسی کام میں مزہ ہی نہ آتا تھا۔۔۔ کھانے پکا پکا کر وہ انہیں نئے نئے برتنوں میں سجاتی تاکہ کھانوں کا مزہ دوبالا ہو جائے ۔ ایک مرتبہ وہ کچھ نیا پکا کر پڑوسن کو دینے گئی تو اس نے بڑی محبت سے نسیمہ کو سمجھاتے ہوئے اسے مور پالنے سے منع کیا اور کہا کہ مور پالنے سے گھر ویران ہو جاتے ہیں۔ اس نے ہنس کر اپنی پڑوسن کی بات نظر انداز کر دی تھی ، پر جب کبھی مور زور زور سے چیختے تھے تو ایک لمحے کے لئے پڑوسن کے کہے ہوئے لفظ اس کے کانوں میں ہلچل مچاتے ، فوراً ہی وہ یہ ہلچل اپنے دل کے نہاں خانے میں دفن کر دیتی تھی ۔۔۔ لیکن اُس روشن صبح کو جب اس کی آنکھوں کے سامنے یہ سن کر اندھیرا سا چھا گیا کہ بلال پڑھنے کے لئے باہر جانا چاہتا ہے ۔۔۔ اسے پڑوسن کی بات پر کچھ کچھ یقین آنے لگا ۔۔۔ بلال کے چلے جانے سے گھر تو کیا اس کی زندگی ہی ویران ہو جائیگی ۔۔۔ اس نے اس خوف کو سینت کر اپنے سینے سے چمٹا لیا لیکن آخر یہ انہونی ہو کر ہی ٹلی جب بلال نے مختلف زبانوں اور مضمونوں کے ٹیسٹ پاس کر لئے ۔ ویزا ملنے کی دیر تھی بلال نے پر عزم ، روشن آنکھوں کے ساتھ اپنے کام کی چیزیں سمیٹنا شروع کیں ۔ نسیمہ چپ اداس سی سارا دن اپنے پرندوں کے پنجروں کی صفائی میں خود کو مصروف رکھتی ، اپنے پودوں سے خودرو اگنے والے ننھے ننھے گھاس کے پتوں کو نکالتی رہتی ۔۔ اور ۔۔ پھر بلال چلا گیا ۔۔ اب اس کا دل نہ تو چڑیوں میں لگتانہ طوطوں میں ۔۔ نہ چکور ہی اسے بھاتا اور موروں سے تو اسے نفرت ہو چکی تھی ۔ زندگی سے اکتاہٹ کی وجہ سے اس کے پودے بھی سوکھنے لگے ۔ اس کی کیاریاں ویرانی اوڑھے پڑی رہتیں اور طوطے چڑیاں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے تکتے رہتے ۔
کتنے ہی سال گزر گئے ۔ بلال کو مزید تعلیم کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی ۔۔۔ اس کو گھر بیچنا پڑا ۔۔۔ موروں کو اس نے چڑیا گھر والوں کو تحفتاً دے دیا ۔ چکور بیمار ہوکر مر چکا تھا ۔ نیا گھر چھوٹا بھی تھا اس لئے اس کے ساتھ صرف نارنجی چونچوں والی لالیاں اور چند آسٹریلین طوطے ہی جا سکے ۔۔۔ اور اس کا پیارا مٹھو جس کا نام اس نے روزیلا رکھا تھا ۔۔ جو ہر نئی بات خود بخود سیکھ لیتا تھا اور اکیلے میں نسیمہ کا دل بہلائے رکھتا تھا ۔۔۔
کتنے ہی سال اور گزر گئے ۔۔۔ چھوٹی ماریا اب جوانی کی دہلیز پر آن بیٹھی تھی اور دن رات نجانے کیا سپنے دیکھا کرتی تھی۔ وہ بلال کے جانے کے وقت اتنی چھوٹی تھی کہ اس کی یاداشت میں بھائی کی کوئی بات بھی نہیں تھی ۔ ماں باپ کی آنکھوں میں انتظار اور امید کی شمعیں روشن دیکھ کر وہ نفرت اور محبت کے درمیان کسی No Man,s Land پر آ کھڑی ہوتی تھی ۔ کبھی بے اختیار ہو کر بھائی کے آنے کی دعائیں مانگتی اور کبھی اس کو کوستی اور پھر کسی ان دیکھی محبت کے زیرِ نگیں ہو کر اللہ سے معافی مانگتی ۔
اور ۔۔۔ کل اچانک ۔۔۔ بلال آ گیا ۔ بغیر کوئی اطلاع دیے ۔ نسیمہ اپنے کریلے کی بیل کو دیوار پر پھیلاتے ہوئے ایک پرانا گاناگنگنا رہی تھی ۔۔۔ راجہ کی آئے گی بارات ، رنگیلی ہو گی رات ، مگن میں ناچوں گی ۔۔۔ اور یہ راجہ کبھی بلال کی شکل میں اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا کبھی ماریا کے ان دیکھے دولہا کی صورت میں جھلک دکھا کر غائب ہو جاتا ۔ ایک تھکی ہوئی مضمحل مسکراہٹ کے ساتھ وہ بار بار گیت کے بول دوہرا رہی تھی ۔۔۔ کہ گھر کی گھنٹی چیخی ۔۔۔ ایک کّوا منڈیر پر سے کائیں کائیں کرتا چھت پر لگی لوہے کی ریلنگ پر جا بیٹھا ۔۔۔ وہ مسلسل شور کر رہا تھا ۔ نسیمہ کا دل زور سے اچھلا اور دروازہ کھولتے ہی جیسے ملگجی اداس شام روشن ہو گئی ۔۔۔ وہ خوشی سے ہڑ بڑا کر اندر دوڑی ۔۔۔ طوطے کو دیکھ کر چیخی ۔۔۔ بلال آ گیا۔۔۔ بلال آ گیا۔۔۔ پھر باہر آئی ۔۔۔ شادیٔ مرگ کی کیفیت میں نسیمہ کو اپنے بازوؤں میں سنبھالتا بلال اندر داخل ہوا ۔ اوپر کے کمرے سے ماریا ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی نیچے آ رہی تھی ۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے جھرنے رواں تھے ۔۔۔ طوطا حالات کا اندازہ لگا کر خوشی سے اپنے پنجرے میں ادھر اُدھر جھول رہا تھا اور چلا رہا تھا ۔۔ بلال آ گیا ۔۔ بلال آ گیا ۔۔ پل کے پل گھر میں قہقہے گونجنے لگے ۔ قمقمے روشن ہو گئے ۔ پکوان تیار ہونے لگے ۔۔۔ برتن جو ایک دوسرے پر پڑے پڑے چپک چکے تھے ، اب کھڑاک کھڑاک اپنی جگہیں بدل رہے تھے ۔ وہ اس اچانک چہل پہل پر سراسیمہ بھی تھے لیکن بہت جلدی کبابوں کی خوشبو ، چٹنیوں کی کھٹاس اور کوفتوں کے ذائقوں نے ان پر ساری حقیقت کھول دی تھی ۔۔ وہ نئے نکور ہو کر میز پر بڑی تمکنت سے دھرے ہوئے تھے اور چھریوں کانٹوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھ رہے تھے ۔
زندگی میں وقت پر لگا کر نا محسوس طریقے سے اڑتا رہتا ہے لیکن دل کی زمینوں پر زمانے ٹھہر جاتے ہیں ۔ ان کے چھوٹے سے گھر میں یہ پندرہ دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے ۔۔ کچھ بھی طے نہ ہو سکا ۔۔ ماریا کے سپنوں کی حد ، نسیمہ کی امیدوں کی گہرائی اور ابراہیم کی دعاؤں کی وسعت ، سب کمرے میں ادھر اُدھر بکھری پڑی رہ گئیں ۔ سوالوں نے خود ہی ادھورے جواب آنکھوں سے چن لئے اور خیروں کے ان گنت تعویزاس کے گلے میں ڈال دیے ۔
اگلی صبح بہت خاموشی سے طلوع ہوئی ۔۔۔ ابراہیم کو اپنی کنپٹیوں میں درد سا محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ ایک ہفتے سے اپنے کام پر نہیں جا سکا تھا ۔ دفتر سے بلاوے پر بلاوا آ رہا تھا ۔ آج تو اسے جانا ہی تھا ۔۔۔ ماریا کی ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ گرد سے اٹا تھا ، وہ بستر پر بے سدھ پڑی پندرہ دن اور راتوں کی نیندیں پوری کر رہی تھی ۔۔۔ نسیمہ پودوں کو پانی دے کر اندر اپنی بوسیدہ لکڑی کی کرسی پرجھول رہی تھی جس کی چرخ چوں سے کمرے کی فضا میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کئے تسبیح کے دانے گھما رہی تھی ۔۔۔ بلال ابھی سفر میں ہو گا ۔۔۔ نیلے پانیوں سے بہت اوپر اس کا جادو کا ہنڈولا اسے اڑائے لئے جا رہا ہو گا ۔۔۔ وہ سفر کی دعائیں پڑھنے کے بعد یا سلامُ کا ورد کر رہی تھی ۔۔۔۔ نادان طوطا ۔۔۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد نعرہ لگا دیتا تھا ۔۔۔ بلال آ گیا ۔۔۔ بلال آ گیا ۔۔۔ اور نسیمہ کے دل پر ہر مرتبہ یہ سوچ کر گھونسہ پڑتا کہ بلال تو جا چکا ۔۔۔ اور اگلی صبح جانے کب آئے ۔۔۔ پھر تسبیح کا آخری دانہ گرا ۔۔۔ نسیمہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا ، ایک چڑیا کھلی ہوئی کھڑکی سے جانے کب اندر آ گئی تھی اور اس کو واپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا ۔۔۔ دو چار مرتبہ دیواروں سے سر ٹکرانے کے بعد آخر وہ چھت کے قریب بنی کھڑکی سے پھُر سے باہر نکل گئی ۔۔۔ نسیمہ کی نظریں کھڑکی کی طرح کھلی تھیں ۔۔۔ طوطا بدستور تھوڑی تھوڑی دیر بعد نعرہ لگا رہا تھا ۔۔۔ نسیمہ کا ہاتھ کرسی کے ہتھے سے ٹکرایااور تسبیح ٹوٹ کر فرش پر جا گری ۔ اس کے دانے دھاگہ ٹوٹنے سے فرش پر دور دور تک بکھر گئے ۔ طوطے نے ایک لمحے کو مڑ کر دیکھا اور کچھ بھی نہ سمجھا ۔۔۔ اور خاموشی سے اپنے پنجرے کی سلاخ سے چمٹ کر اگلے منظر کا انتظار کرنے لگا ۔