محمد حامد سراج(چشمہ بیراج،میانوالی)
’’ ریشماں والی گلی میں ایک دکان ہے کشیدہ کاری کی ۔۔۔۔کلورِ یاں والی گلی!‘‘
ریشماں والی گلی کا نام میرے مانوس نہ تھا تاہم کلورِ یاں والی گلی میرے دھیان میں آتے ہی ایک مہک سے جڑ گئی تھی۔میں ایک مدت بعد یہاں آیا تھا اس اسی بیچ والے عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن کلورِ یاں والی گلی کے ساتھ ریشماں والی گلی کا اجنبی نام آیا توعین اسی سمے اس کی نامانوسیت معدوم ہو چکی تھی کہ اس کے ساتھ میرا بچپن جڑا ہوا تھا۔ تب میں گؤشالہ پرائمری سکول میانوالی میں پانچویں کا طالب علم تھااور میں اسی گلی سے ہو کر گزرا کرتا تھا۔ کشیدہ کاری کی دکان سے مجھے ایک سوٹ لینا تھا۔
کلورِ یاں والی گلی تک میں اپنے بچین کی انگلی تھام کر پہنچ گیا اس گلی میں داخل ہوکر مجھے یوں لگا کہ کچھ بھی نہ بدلا تھا ۔ مانوس دیوار و در سے جا چکے وقت نے پلٹ پلٹ کر مجھے بلانااور بہلانا شروع کردیا تھا۔ میں گلی کے اندر دور تک گھستا چلا گیا حتی کہ مسجد لوھاراں کے بغل میں موجود حافظ والی ہٹی آگئی جہاں سے ٹافیاں‘ بتاشے‘ ریوڑیاں‘ ٹانگری‘ اور مونگ پھلی لینا معمول تھا۔ یہیں قلفی والی ریڑھی لگا کرتی جو شام ڈھلنے تک گلی میں موجود رہا کرتی تھی۔ اس ریڑھی سے ہم ایک آنہ ‘ دو آنہ کی قلفیاں لیا کرتے تھے ۔ کچھ آگے نکڑپر منیاری کی دکان تھی اور پھروہ مکان جہاں سے روازانہ شام، میں نانی اماں کے کہنے پر میں دودھ لایا کرتا تھا۔
اس سے آگے بھی گلی کلورِ یاں چلتی تھی مگر میں ایک مہک کی گرفت میں آگیا تھا جو یہاں آتے ہی میرے تعاقب میں تھی ۔ بھیڑ کے اندر جس میں ،میں گھسا ہوا یہاں تک پہنچ گیا تھا، ایک جھپاکے کے اندر سے اس مانوس مہک کو اٹھتا اور بھیڑ کے اندر گم ہوتا دیکھ رہا تھا۔۔ اب میں اس کے تعاقب میں تھا۔ ادھڑے وقت کے سارے رخنے جیسے اس مہک نے پاٹ دیے تھے۔ مہک معدوم ہو گئی یا پھر وہ گلی ختم ہو گئی تھی جو دھرم شالہ کے پاس پہنچ کر کھل جاتی تھی۔
کھلی گلی کے اجالے نے مجھے چونکایا تو مجھے احساس ہوچکا تھا کہ میں بہت آگے نکل آیا تھا۔ آگے نہیں ، بہت پیچھے ۔
میں نے اپنے قدموں پر گھوم گیا۔ عجلت مجھے آگے کو کھینچتی تھی کہ ہزار کام تھے جو نمٹانا تھے ۔۔۔ میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا: بھائی ریشماں والی گلی کون سی ہے ۔۔۔؟
یہ سامنے ریشماں والی ہی تو ہے ۔۔
اور کلورِیاں والی ۔۔۔؟
وہ اس کے ختم ہوتے ہی شروع ہو جائے گی۔
مجھے یاد آیا کہ آتے ہوئے مجھے بتایا گیا تھا کہ جب کلورِیاں والی گلی ختم ہو گی تو کلورِیاں والی گلی نے آجانا تھا۔
جہاں میں تھا وہاں سے بتائی گئی حقیقت اوندھی ہو گئی تھی۔
پہلے جس گلی کو جہاں ختم ہونا تھا وہ وہاں سے شروع ہو رہی تھی اور شروع ہونے والی ختم ۔
جب میں ریشماں والی گلی میں پھر سے داخل ہوا تو مجھے یہ تخمینہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی گلی کا یہ حصہ جو پہلے کلورِیاں والی گلی ہی تھا منیاری کپڑے اور درزیوں کی غیر معمولی دکانوں کی تعداد زیادہ ہو جانے سے ریشماں والی گلی ہو گیا تھا ۔ میں بچپن کی گرد جھاڑتا اپنا نام بدل لینے والی گلی کے وسط میں موجود کشیدہ کاری کی دکان میں داخل ہوگیا۔
زگ زیگ مشین پر دکان دار اپنے کام میں مگن تھا۔ میں نے ہاتھ ملایا تعارف کرایا اور بیٹھ گیا۔ اسے وقت پیچھے دھکیلنے میں ذرا دقت نہ ہوئی تھی۔ چائے منگوائی اور بہت کچھ ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالا ۔ اسی دوران ایک نوجوان نے اپنی سائیکل دیوار کے سہارے کھڑی کی اور اندر داخل ہوا ۔ اس کی بغل میں کالی شال تھی۔نکلتا ہو ا قد‘نوکیلی مونچھیں ‘ پاؤں میں میانوالی کی روائتی تِلّے والی کھیڑی‘بوسکی کا لمبا کُرتا،لٹھے کی شلوار‘ وہ وجیہہ لگ رہا تھا۔
’’ یہ میری شال ہے بہت شوق سے بنوائی تھی میں نے ۔سائیکل کے پہئے میں آکربرباد ہو گئی۔کیا یہ مرمت ہوسکتی ہے۔۔۔؟
دکان دار نے شال کودیکھا، پرکھااور کہا: ’’ رفو ہو جائے گی‘‘
جوان نے دکان میں چہاروں طرف نظر ڈالی ۔ جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔ کیلنڈر پر ۔ دیوار پر چسپاں ایک ایکٹریس کی تصویر پر بہت دیر تک اس کی نظریں ٹکی رہیں۔ جدید ملبوس سے کہیں زیادہ اس کے اندر سے چھلکتا اس کا بدن اسے لبھا رہا تھا۔ اس جیسی دوسری تصاویر پر سے اس کی نظریں پھسلتی پھر اپنی شال پر آ کر ٹِک گئیں۔اس بار اس کا مخاطب میں تھا:
’’روپیہ روپیہ جوڑ کر یہ شال بنوائی ہے میں نے۔ رفو کرنے سے یہ اوڑھنے کے قابل تو ہو جائے گی نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں بالکل ۔۔۔رفو ہو کر ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘
’’ بہت سال بعد اللہ نے خواہش پوری کی، لیکن سائیکل کے پہئے میں آکر شال ادھڑ گئی۔‘‘
جتنی دیر شال مرمت ہوتی رہی میں وہ رفو گری کا عمل غور سے دیکھتا رہا۔
دکان کے سامنے والے تھڑے پر ایک شخص ،جس کے لباس میں بے شمار پیوند تھے ،بیٹھا اپنی جوتی گانٹھ رہا تھا۔وقفے وقفے سے اس کے حلق سے حق ھُو کی آواز نکلتی جو میرا دھیان کھینچ رہی تھی۔ بوڑھا خود دنیا و مافیہا سے بے خبر جوتی گانٹھنے میں مگن تھا۔ گویا وہ گلی اور اس میں موجود بھیڑ اس کے لیے جیسے تھی ہی نہیں۔
میں ، سارے منظر سے لا تعلق اپنی دنیا میں مگن اس شخص کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو پارہا تھا کہ منقسم ہونے والی گلی ، ادھڑی ہوئی شال کے ریشے اور معدوم ہو جانے والی مہک بیچ میں آکر میرا دھیان کاٹ رہے تھے۔
جوتی گانٹھتے گانٹھتے اس شخص نے سر اٹھا یا ، یہاں تک کہ اس کی نگاہ آسمان پر جاکر ٹک گئی ۔ اس کے حلقوم سے حق ہو کی صدا نکلی ۔ میری گردن تیزی سے اس کی جانب گھومی ، عین اسی لمحے میں اس کی نگاہیں آسمان پر جاکر الجھ گئیں۔ اس بار حق ہو کی پکار اس کے تنے ہوئے حلق کو چیرتے ہوئے نکل کر پھٹ گئی تھی ۔
ادھڑی ہوئی شال کی طرح ادھڑی ہوئی آواز نے میرے دھیان کی گٹھڑی باندھ کر اپنے پاس دھرلی تھی۔
اوپر کو اٹھا ہوا سر تیزی سے واپس اس کی جھولی میں گر گیا تھا۔ مجھے لگا جیسے کٹے ہوئے حلق کے کنارے بج رہے تھے:
’’ عشق کہے تساں چنگا کیتا، بوہے یار دے واڑیا سی،،
یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنے دھیان کی گٹھڑی اپنی گرفت میں لے لی تھی ۔ اب مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گلی کٹ کر جڑی تھی یا جڑ کر کٹ گئی تھی کہ ادھڑے ہوئے وقت کی شال کے ریشے رفو ہو کر اپنی جگہ پر پھر سے بیٹھ گئے تھے اور میں ادھر ادھر سے بے نیازاس سمت جست لگا چکا تھا جہان معدوم ہونے والی مہک کے وسیلے سے کٹنا اور جڑنا ایک ساہو گیا تھا۔
٭٭٭
میں نے جب کبھی لفظوں کی کائنات پر غور کیا ہے تو مجھے اس میں بھی دو متوازی دھارے واضح طور پر دکھائی دئیے ہیں،ان میں سے ایک دھارا تو وہ ہے جس میں الفاظ کثرتِ استعمال سے دمبدم اپنی داخلی حرارت سے محروم ہو رہے ہیں۔یعنی مرگِ حرارت میں مبتلا ہیں اور یوں law of entropyکے تابع ہو کر نہ تو خود کو Regenerateکر سکتے ہیں اور نہ تخلیق کے عمل ہی سے بہرہ مند ہونے پر قادر ہیں۔۔۔۔۔دوسرا دھارا ان الفاظ کا ہے جو فن کار کے ہاتھوں کے لمس سے زندہ اور بو قلموں جسموں کی طرح دھڑکنے لگتے ہیں۔۔۔۔ایک اچھے ادیب کا کام ہے کہ وہ اپنے تخلیقی عمل میں پہلے تو لفظ کو اس کے مروّج مفہوم سے نجات دلاتا ہے اور پھر ایک جادو گر کی طرح اسے ایک نئے،تازہ اور زرخیز مفہوم سے منسلک کر دیتا ہے مگر یہ مفہوم کوئی پہلے سے طے شدہ نظریہ نہیں ہوتا بلکہ ایک پرچھائیں کے مانند ہوتا ہے جو لحظہ بہ لحظہ بڑی ہوتی چلی جاتی ہے اور اَن دیکھے،اَن چھوئے جہانوں کو صورت پذیر کرتی ہے۔
(ڈاکٹر وزیر آغا کے مضمون علمی زبان اور ادبی زبان سے اقتباس)