سلیم آغا قزلباش(سرگودھا)
اس نے اپنی جان پر کھیل کر اس لڑکی کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی مگر جب وہ اسے دونوں ہاتھوں پر اُٹھائے کنارے پر پہنچا تو وہ دَم توڑ چکی تھی،لیکن قتل کا الزام اس کے سر تھوپ دیا گیا۔کسی نے بھی اسے لڑکی کو بچاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔سب کا خیال تھا کہ اس نے کسی پرانی رنجش کی بنا پر اسے پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا ہے۔
آخر کافی سوچ بچار کے بعد قبیلے کے سرپنچوں نے متفقہ طور پر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں،پیروں میں سے کسی ایک جوڑی کو کٹوانے یا اپنی دونوں آنکھیں نکلوانے کا انتخاب خود کرے۔اس انتخاب کے لیے اسے صرف رات بھر کی مہلت دی گئی اور وہ بھی اس کڑی شرط کے ساتھ کہ اگر اس نے پو پھٹے تک کوئی فیصلہ نہ کیا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔
جب وہ اسے کوٹھڑی میں بند کرکے چلے گئے تو اس نے دو تین گہرے سانس لے کر خود کو ذہنی طور پر مجتمع کرنے کی کوشش کی۔اسے ایک حتمی فیصلے پر پہنچنا تھا اور اس فیصلے پر ہی اس کی آئندہ زندگی کا سارا دارومدار تھا۔اس کا ایک غلط قدم اس کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا سکتا تھا۔یکبارگی اس کے تن بدن میں تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔دل سینے کی بند کوٹھڑی میں یوں دیوانہ وار ٹکرانے لگا جیسے اسے توڑ کر فرار ہوجانا چاہتا ہو۔پھر اسے یوں لگا جیسے کوئی سیلن زدہ بوجھ کونوں کھدروں سے اس کی جانب خاموشی سے سرکتا چلا آرہا ہے۔وہ نڈھال سا ہو کر سرکنڈوں کی بنی چٹائی پر چت لیٹ گیا۔مگر تھوڑی ہی دیر میں دوبارہ اُٹھ کر بیٹھ گیااور بے قراری سے اپنی ہتھیلیوں کو مسلنے لگا۔
یہ سوچ اسے بار بار ڈس رہی تھی کہ عجیب و غریب نوعیت کی یہ سزاآخر اس کے لیے کیوں تجویز کی گئی ہے!فردِ جرم کے بعد فیصلہ بھی سر پنچوں کو ہی سنانا چاہیے تھا۔شاید وہ مجھے خود میرے ہاتھوں قتل کرانا چاہتے ہیں۔انتقام لینے کا یہ کیسا بھیانک انداز ہے!یہ دوہری چال ہے،سازش ہے۔خود اپنے لیے سزا کا تعین کرنا کتنا جان لیوا مرحلہ ہوتا ہے،
اس بات کا تجربہ اسے ہو رہا تھا۔
سب سے پہلے اس کی آنکھوں نے اس لڑکی کو دریا میں غوطے کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔پھر اس کے دونوں پاؤں اندھا دھند بھاگتے ہوئے دریا کنارے پہنچے تھے،اس کے بعد اس کے دونوں ہاتھوں نے بے اختیار آگے بڑھ کر دریا میں ڈبکیاں کھاتی لڑکی کو پکڑ لیا تھااور اسے اُٹھا کر کنارے پر لے آئے تھے۔مطلب یہ کہ اس کی آنکھیں،ہاتھ،پاؤں سب اس عمل میں برابر کے شریک تھے مگر ان تینوں میں سے پہل کس نے کی؟آنکھوں نے،
نہیں پیروں نے یا پھر شاید ہاتھوں نے؟لیکن اس غلطی کی اصل ذمہ داری کس کے سر تھی؟یقیناََ اس کی آنکھوں نے اسے موت کے کنویں میں دھکیلا تھا۔مگر آنکھیں تو بے بس تھیں۔وہ تو صرف موقعہ کی گواہ تھیں۔غلط قدم تو پیروں نے اُٹھایا تھاکہ ایک دَم دوڑ پڑے تھے۔لیکن اصل کام تو ہاتھوں نے ہی انجام دیا تھا۔مان لیا کہ آنکھوں اور پیروں سے غلطی سرزد ہو گئی تھی لیکن کم از کم ہاتھوں کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا۔اگر وہ اُس وقت رک جاتے تو آج اسے ان جانکنی کے لمحوں سے تو نہ گزرنا پڑتا۔مگر سچ تو یہ ہے کہ اُس وقت کچھ سوچنے سمجھنے کی مہلت ہی نہیں ملی تھی۔ بس اندر سے حکم ہوا تھا اور اس نے جھٹ اس کی تعمیل میں لڑکی کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔کون تھا یہ حکم صادر کرنے والا!۔۔دوسری طرف گزرتا ہوا ہر پَل اور دل کی ہر دھڑکن اُسے صبح کی جانب دھکیل رہی تھی۔پہلی بار اُسے صبح کے وجود سے شدید نفرت ہونے لگی۔اس کا اندر چیخ چیخ کر واویلا کرنے لگا کہ اے کاش باہر ایسی کالی آندھی امڈ پڑے کہ صبح ملتوی ہو جائے۔
رات کا پہلا پہر ختم ہونے کو تھا جب اس نے اپنے دونوں پیر کٹوا نے کا ارادہ کر لیا اور قدرے پُر سکون ہو گیا۔
مگر جب اچانک اسے شدید پیاس لگی اور وہ کوٹھڑی کے دوسرے کونے میں دو اینٹوں پر رکھی ملگجی سی صراحی میں سے پانی پینے کے لیے اُٹھا اور چل کر وہاں تک پہنچا تو یکایک ایک سنسناہٹ بھری لہر اس کے پیروں کے تلووں میں سے رینگتی ہوئی اس کے سارے وجود میں پھیل گئی۔اسی پل اس کی پیاس بھی ایک معدوم ہو گئی اور وہ اُلٹے قدموں دوبارہ سرکنڈوں کی چٹائی پر آکر ڈھیر ہو گیااور بے اختیار اپنے دونوں پیروں کو پیار سے سہلانے لگا۔یہ سوچ کر اس کا دَم رُکنے لگا کہ بغیر پیروں کے زندگی کیسے گزرے گی۔فقط ایک قدم اُٹھانے کے لیے دو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔یوں بھی جو کوئی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکے اس کی مثال اس عمارت ایسی ہوتی ہے جو بنیاد کھودے بغیر کھڑی کی جارہی ہو۔ظاہر ہے وہ زیادہ دیر تک اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکتی،زمین بوس ہوجانا اس کا نوشتۂ تقدیر ہے۔
رات کا دوسرا پہر تقریباَ آدھا گزر چکا تھا اور وہ انتخاب کرنے کی ادھیڑ بن میں غلطاں و پیچاں تھا،یکایک اس نے اپنے دونوں ہاتھ کٹوانے کا فیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ اس کے لیے تنے ہوئے رسے پر بغیر کسی سہارے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلنے کا مرحلہ تھا اور یہ اس وجہ سے اور بھی زیادہ خوفناک شکل اختیار کر گیا تھا کہ نیچے گہراؤ تھا جس میں ناگ پھن اُٹھائے شوکریں بھر رہے تھے اور بچھو اپنے زہریلے ڈنک لہرارہے تھے۔معاََ اسے یوں لگا جیسے سارے سانپوں اور بچھوؤں نے بیک وقت اس پر ہلّہ بول دیا ہو۔وہ پاگلوں کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے اِن موذیوں کو اپنے بدن سے نوچ نوچ کر پرے پھینکنے لگا۔اس لمحے اسے اپنے دونوں ہاتھ کٹوا دینے کی سنگینی کا علم ہو گیا۔ایک بار تو اس دہشت ناک تصور سے ہی اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے کہ ٹنڈ منڈ بازوؤں کے ساتھ آدمی کتنا بے بس اور بے یارو مددگار ہوجاتا ہے۔ہاتھ تو دو ایسے پتوار ہیں جو وجود کی ناؤ کو زندگی کے پر شور دریا میں سفر جاری رکھنے کے قابل بنائے رکھتے ہیں۔ان کو کٹوانا زندگی کی ناؤ کو بے پتوار کرنے کے مترادف ہے تب دونوں ہاتھ اس کے سامنے دو ایسے ورق بن گئے جن پر اس کی آنے والی زندگی کی پوری کہانی لکھی ہوئی تھی۔اس نے پڑھا کہ ہاتھوں کے بغیر روٹی کے ایک لقمے اور پانی کے ایک گھونٹ کے لیے بھی اسے دوسروں کا محتاج ہونا پڑے گا۔محتاجی اور بے بسی کی ایسی زندگی آدمی کو زمین پر رینگنے والے کیچوے سے بھی بد تر بنا دیتی ہے۔
رات کا تیسرا پہر ہچکیاں لے رہا تھا جب اس نے اپنی دونوں آنکھیں نکلوا دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ اس نے کافی سوچ بچار کے بعد کیا۔اس نے سوچا کہ ہاتھوں سے ٹٹول کر زندگی کسی نہ کسی طرح گزاری جا سکتی ہے بلکہ اگر ہاتھ میں چھڑی تھام لی جائے تو آدمی گڑھوں میں گرنے سے بھی بچ جاتاہے۔اور کچھ نہیں تو کسی کا ہاتھ تھام کر بھی یہ سفر طے ہو سکتا ہے۔کم از کم اس فیصلے کے نتیجے میں جسم کا ظاہری ڈھانچہ تو بہر طور سلامت رہے گا۔آنکھیں تو یوں بھی بڑی بھوکی ہوتی ہیں۔ساری برائیاں،خواہشیں اور توقعات انہیں دو روزنوں کے راستے دل و دماغ میں جاگزیں ہوتی ہیں۔آنکھوں کی روشنی کی بجائے دل کی روشنی سے کام لیا جا سکتا ہے۔یہ سب سوچ کر اس نے رات بھر جاگی اپنی تھکی ہاری آنکھوں کو موند لیا۔پھر شاید اس کی آنکھ لگ گئی۔تب اچانک چڑیوں کے چہچہوں نے اس کی آنکھوں کے پپوٹوں کا پردہ اُلٹ دیااور وہ ھڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔کچھ لمحوں تک وہ خالی خالی نظروں سے سامنے دیوار کی جانب ایک تار دیکھتا رہااور جب حواس کچھ بحال ہوئے تو اس کے جی میں پو کے پھٹنے کے منظڑ کو دیکھنے کی شدید خواہش تڑپ کر جاگ اُٹھی۔وہ ایک عجیب سی بے خودی کے عالم میں اپنے پیروں کو گھسیٹتا ہوا کوٹھڑی کے اکلوتے روزن کی جانب بڑھا۔وہاں پہنچ کر اس نے ایڑیاں اُٹھا کر بمشکل تمام روزن میں سے باہر جھانکا تو اس کے سامنے صبح کاذب کے بعد کا سحر انگیز منظر پھیلا ہوا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے بگلوں کی سفید براق ڈار سفید جھالر کی صورت اس کے سامنے سے گزری۔یکایک اس کا سارا اندر ایڑیاں اُٹھا کر اس کی آنکھوں کے روزنوں سے جھانکنے لگا۔چند لحظوں کے بعد نیم کے ایک گھنے درخت پر سے چڑیوں کا ایک جھنڈ یوں اوپر اُٹھا جیسے کسی نے مٹھی میں بھرے چمکتے سکّوں کو ہوا میں اچھال دیا ہو اور ٹھیک اسی لمحے اس پر یہ انکشاف ہوا کہ زندگی کی ساری رنگا رنگی،شادابی اور دلکشی ان دو روشن کھڑکیوں ہی کی عطا ہیں۔ان سے محروم ہو کر زندگی سے سمجھوتہ کرنا بہت مشکل ہے۔تب معاََ دو دہکتی سلاخوں کو اپنی آنکھوں کی جانب بڑھتے تصور کرکے وہ خوف سے چیخ اُٹھامگر پھر دوسرے ہی لمحے وہ زمین پر بیٹھ گیااور اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔جب اس کے آنسو تھمے تو اسے اپنے بدن سے کوئی چیز باہر کو سرکتی ہوئی صاف محسوس ہونے لگی،پھر ایک عجیب سی کپکپی نے اسے اپنے شکنجے میں کس لیا۔اس کے بعد اس کے بدن میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اور حلق میں پھندا سا پڑ گیا۔اسے لگا جو چیز باہر کو آرہی تھی وہ گلے میں پہنچ کر اٹک گئی ہے۔اس کی پیشانی پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے مردہ حروف کی صورت اُبھر آئے۔گردن کی طنابیں کھنچ گئیں اور پھر اس کا سارا وجود سُن ہو گیا۔عین اس وقت کوٹھڑی کے زنگ آلود آہنی دروازے کو کسی نے پورے زور سے پیچھے کی جانب دھکیلا۔دروازہ درد سے کراہ اُٹھا۔بھاری بھر کم جوتوں کی آہٹیں کوٹھڑی میں یکے بعد دیگرے داخل ہوئیں۔فیصلے پر عملدرآمد کرنے والوں کی سفّاک آنکھوں نے اندر آکر دیکھاکہ کوٹھڑی کے اکلوتے روزن کے بالکل نیچے،سل زدہ سنگی فرش پر گھٹنوں میں آنکھیں چھپائے،ٹانگوں کے گردا گرد مضبوطی سے ہاتھوں کا حلقہ بنائے وہ گچھو مچھو سا گٹھڑی بنا بے حس و حرکت یوں بیٹھا ہوا تھا جیسے اُس کے اعضا موم کے ایک گولے کی صورت باہم جُڑ کر ایک ناقابلِ تقسیم اکائی میں ڈھل گئے ہوں۔