انور زاہدی(اسلام آباد)
تنگ گلیوں میں سے ہوتا ہوا جب میں اس محلے میں پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے یا تو میں خواب دیکھ رہا ہوں یا پھر یہ جوبھی جگہ تھی میری دیکھی بھالی ہی نہیں میرے خیالوں میں کب سے آباد تھی اور میں قرنوں سے اس جگہ سے مانوس تھا ۔ایک وسیع و عریض گلی بلکہ سڑک کہہ لیں ،جس کے اطراف میں دونوں طرف کئی کئی منزلہ پرانی وضع کے گھر تھے جن کے سامنے لکڑی کی بنی ہوئی بالکونیاں یا راہ داریاں تھیں اور ہر گھر اپنے برابر کے گھر سے کچھ ایسے جُڑا ہوا تھا جیسے خوف کی حالت میں قطار میں کھڑے ہوئے بچے سہم کرایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔
بیشتر بالکونیوں میں گھر وں کی عورتیں لکڑی کے منقش ستونوں پر بندھی الگنی پر دھلے ہوئے کپڑے سوکھنے کو پھیلا رہی تھیں یا پھر کپڑے اتارنے میں مصروف تھیں ۔کچھ بالکونیوں میں کام کاج سے بے نیاز بُڈھے کرسیوں پر بیٹھے نیچے بازار کا منظر دیکھ رہے تھے ۔اور وہ جو منظر دیکھ کر اوب چکے تھے ۔یا حقہ نوشی میں مصروف تھے یا پرانے اخبارات کا از سر نو مطالعہ کر نے میں مشغول تھے ۔کچھ بالکونیوں پر پڑی چقیں یہ تاثر دیتی تھیں کہ اُن گھروں کے مکین گھر میں نہیں ہیں ۔اور ایک مکان کی بالکونی میں کھڑی ایک نوجوان لڑکی جو‘ شاید نہاکر وہاں کھڑی ا پنے شانوں پر بکھری زلفیں تولیے سے سکھا رہی تھی۔ بالکل ایک خوبصورت نظم بنی پورے منظر نامے میں صبح کی پہلی کرن کی طرح نمایاں تھی ۔
یاخدا یہ کون سی جگہ ہے ۔۔۔؟ اس قدر مانوس۔۔۔کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔؟
وسیع گلی کے اطراف میں موجود مکانوں کی نچلی منزل پر واقع سامنے والے کمروں میں سے بیشتر کمرے اب دکانوں کی شکل اختیار کرچکے تھے اور ان دکانوں میں ہر گھر کی ضرورت کا سامان فراہم تھا ۔جس وقت میں اسٹیشن سے اتر کر یہاں پہنچا تو نئے دن کی ابتدا ہورہی تھی ۔لہٰذا کم وبیش ہر دکان کے سامنے گھروں سے نکلے ہوئے بچے اور بڑے اپنے اپنے گھروں کے لئے گھر کا سودا سلف لینے کوکھڑے تھے ۔
گلی کے کونے میں دودھ دہی والے کندن حلوائی کی دکان دور سے نمایاں تھی ‘جس کی برفی ‘قلاقنداور پیڑے بڑے مشہور تھے لیکن جہاں مٹھا ئی اور دودھ دہی خرید نے والوں کے علاوہ لسی پینے کے شوقین لوگوں کا ہجوم رہتا۔۔ ۔۔اور وہ جو لسی پینے کے شوقین تھے ۔۔۔دکان میں پڑی بنچوں پر بیٹھے سلور کے بڑے بڑے گلاسوں سے لسی پینے میں مشغول نظر آتے ۔۔ان میں بیشتر تعداد اُن نوجوانوں کی ہوتی جو صبح گھر سے ورزش یا پھر بھاگ دوڑ کے لئے کسی باغ یا پارک سے واپس یہاں آکر بیٹھتے تھے۔
کندن حلوائی کی دکان کے مقابل ستار بھائی کا چائے خانہ تھا،جہاں دن بھر کڑک چائے تو چلتی ہی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناشتہ پراٹھا ستار بھائی کے چائے خانے کی خصوصیت تھا ۔یہاں پرچائے پینے والوں کی دو قسمیں تھیں ۔ ایک کالج اور دفتروں کے آنے جانے والے بابووضع کے لوگ جو تیز پتی والی چائے پینا پسند کرتے۔دوسرے بازار کے زیادہ تر دکاندار لوگ جن کے ہاں سار اسارا دن دوھ پتی کی چائے چلتی رہتی ۔دلچسپ بات یہ تھی کہ کندن لسی والے کی دکان اور ستار بھائی کا چائے خانہ دونوں ہی اس بازار کی مصروف ترین دکانیں تھیں۔
میں پاپولیشن سروے کے محکمے میں سروے انسپکٹر کی حیثیت سے صبح یہاں پہنچنے والی پہلی ٹرین سے اترا تھا ۔مجھے شام پور ضلع کے پاپولیشن پلاننگ کے دفتر میں جانا تھا ۔لیکن معلوم نہیں کس طرح میرے قدم مجھے یہاں تک لے آئے اور کیسے میں اس محلے میں پہنچ گیا ؟لیکن جب یہاں پہنچا تو یو ں لگا جیسے میں کسی گزرے ہوئے عہد میں یہاں رہ چکا ہوں ۔محلے کے مکانات ۔۔مکانوں کی طرز تعمیر ۔۔اور پھر ان مکانوں کے سامنے بنی ہوئی لکڑی کی قدیم لیکن جاذب نظر بالکونیاں ۔۔اور بالکونیوں میں بیٹھے مرد اور کام کرتی خواتین ۔۔سب جیسے میرے کسی پرانے خواب کا حصہ ہوں۔سو چا جب یہاں تک آہی گیا ہوں تو کیوں نہ ایک کپ چائے کا پی لوں۔اس ارادے سے جیسے ہی میں ستار بھائی کے چائے خانے میں داخل ہوا تو کسی نے ایک کراری آواز میں پکارا۔
’’ارے ستار بھائی ۔۔۔۔‘‘
میں آواز کی طرف پلٹا ہی تھا کہ وہ جو ستار بھائی تھے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے دور ہی سے شور مچاتے ہوئے بولے :’’ عاصم بھائی ۔۔۔آپ نے بھی کمال کردیا ۔۔۔بھئی کہاں رہے اتنی مدت۔۔۔؟‘‘
میں حیران و پریشان ستار بھائی کی شکل دیکھتے ہوئے کچھ بھی نہ کہہ سکا ۔۔۔بس سامنے پڑی ہوئی ایک خالی میز کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔ابھی اسی اُدھیڑ بن میں تھا کہ یہ ستار بھائی کون ہیں ۔۔ پھر یہ جو بھی ہیں ۔۔ مجھے میرے نام سے کیسے جانتے ہیں۔۔۔؟اور پھر یہ ماحول بھلا کیوں مجھے جانا پہچانا لگ رہا ہے ۔۔؟
کہ میرے خیالات کے تار پود کو ایک مرتبہ پھر ستار بھائی کی آواز نے بکھیر کے رکھ دیا۔۔۔
’’اچھا عاصم بھائی۔ باقی باتیں تو بعد میں ہوتی رہیں گی ۔یہ بتائیں کہ آپ کھائیں گے کیا۔۔۔؟‘‘
میں جو اب تک اس حیرت کدہ میں ہر شے کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ بمشکل یہ کہہ سکا:
’’چائے مل جا ئے گی۔۔۔۔؟‘‘
’’ عاصم بھائی کیسی بات کرتے ہیں ۔۔۔ ’’چائے ‘‘۔۔یہ چائے خانہ آپ کا ہے۔۔۔۔‘‘اور مجھ سے یہ کہتے ہوئے ستار بھائی نے اپنے ویٹر کو وہیں سے پکارا۔۔۔۔
’’ارے چھوٹے ۔۔۔ جلدی سے عاصم بھائی کے لئے ایک پراٹھا ۔۔فرائی انڈہ اور بہت عمدہ چائے بنا کر لاؤ ۔۔ ‘‘
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا۔ ۔ ستار بھائی کے کاؤنٹر پر رکھے ہوئے پرانے گراموفون پر نجانے کن وقتوں کا ریکارڈ بجنا شروع ہوگیا۔۔۔’’۔۔۔جانے گئے کہاں گئے وہ دن ۔۔۔۔‘‘
مجھے یوں لگا کہ میں حالت خمار میں کسی اور دنیا میں جا پہنچا ہوں ۔میرے سامنے لکڑی کی میز پر ایک ویٹر بوائے شاید وہی چھوٹا ،جسے ستار بھائی نے میرے لئے ایک پراٹھا ،فرائی انڈہ اور بہت عمدہ چائے بنانے کو کہا تھا ،کوئی دس منٹ میں ٹرے میں سب کچھ سجائے میرے سامنے میز پر رکھ کر ،کسی دوسر ے آرڈر کی تکمیل کے لئے جاچکا تھا ۔
صبح کا وقت تھا اور دفتروں میں کام کرنے والے بہت سے ایسے افرادجو اکیلے تھے یا پھر جنہیں گھر کی چائے پر ستار بھائی کے چائے خانے کی چائے پسند تھی یہاں بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سگرٹوں کے مرغولے بنارہے تھے۔میں اپنے سامنے رکھی ہوئی ٹرے میں سے چائے کی کیتلی کو سامنے رکھ کر کپ میں اپنے لئے چائے انڈیل رہا تھا کہ ستار بھائی جنہوں نے میرے چائے خانے میں داخل ہوتے ہی نعرہ لگایا تھا اور مجھے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا تھا ،میرے بالمقابل آبیٹھے ۔
’’عاصم بھائی ۔۔۔کیسے ہیں آپ ۔۔۔؟اتنے دنوں کے بعد آئے ہیں ۔۔۔کہاں جاکر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔؟بھائی ۔۔یہاں سب تمہاری یاد میں پریشان تھے۔۔۔۔‘‘
میں ابھی یہی سوچے جارہا تھا کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو نہ صرف مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں بلکہ میر ی یاد میں پریشان بھی ہیں کہ ستار بھائی نے جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے اور بغور مجھے دیکھے جارہے تھے ۔اپنا بڑھا ہوا ہاتھ مصا فحے کے لئے اس خلوص سے میری طرف بڑ ھا یاکہ میں نے بھی اپنا ہاتھ بحالت مجبوری اُن کے ہاتھ میں دے دیا لیکن ستار بھائی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میں چائے خانے سے نکل کر کسی لق ودق صحرا میں پہنچ گیا ہوں اور میرے چاروں طرف گرم ریت کے بگولے رقص کر رہے ہیں ۔میرے چہرے کو صحرا میں چلتی ہوئی باد سموم جھلس رہی تھی ۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا آخر یہ سب کیا ہے؟۔میں کہاں آگیا ہوں ؟۔یہ کون لوگ ہیں ؟۔ستار بھائی جس طرح مجھ سے مل رہے تھے اُس سے لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے ہی نہیں بلکہ میرے ماضی اورحال سب کی خبر رکھتے ہیں ۔
’’عاصم بھائی آپ خاصے تھکے ہوئے لگتے ہیں پہلے کچھ کھا پی لیں ۔اتنے میں ذرا کاروبار دیکھ لوں ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں یہ رش کا وقت ہوتا ہے۔آپ اتنے میں آرام سے ناشتہ کریں ،میں پھر واپس آکر بیٹھتا ہوں اورآپ سے تفصیل سے بات کرتا ہوں ۔‘‘
مجھے تو شام پور کے محکمہ پاپولیشن میں جانا تھا ۔یہ میں کہاں آکر پھنس گیا ہوں ۔؟کیا مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیئے ؟یا ستار بھائی سے یا جوبھی یہ ہیں ان سے پوچھوں کہ یہ سب کیا ہے ؟ وہ کو ن ہیں ؟ اور مجھے کس طرح جانتے ہیں؟ یا میرا اس جگہ سے کیا تعلق ہے۔؟
رات بھر کے سفر کے بعد اسٹیشن سے یہاں پہنچ کر تھکن کے علاوہ بھوک کا لگنا کوئی غیر منطقی نہ تھا ویسے بھی یہ ناشتے کا وقت تھا اور اگر اس وقت میں اپنے گھر ہوتا اور آفس نہ گیا ہوتا تو یقینا ریحانہ کے ساتھ بیٹھا ناشتہ کررہا ہوتا ۔ میری بیوی ریحانہ کو مجھے سے یہی ایک شکایت تھی کہ میرے پاس اُس کے لئے وقت نہیں ہوتا ۔
وہ خود بھی بچوں کے ایک سکول میں پڑھاتی تھی۔صحیح معنوں میں پوچھیں تو وقت نہ میرے پاس تھا ،نہ اُس کے پاس ۔میں سارا سارا دن سر وے کے لئے یا اپنے مین آفس میں فائلوں میں سر کھپاتارہتا اور اگر فائل ورک نہ ہوتا تو ضرور میرا کوئی ٹوؤر نکل آتا ۔درحقیقت مین آفس میں تو میں مہینے میں شاید ہفتہ یا زیادہ سے زیادہ دس بارہ دن ہی ہوتا تھا ۔باقی کے تین ہفتے میرے پورے ضلع کے چھوٹے بڑے قصبوں اور دیہات میں گزر جاتے اور ایسا دن کبھی اتفاق ہی سے نصیب میں آتا کہ میں اور ریحانہ اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات سنیں۔ ایک دوسرے کو نظر بھر دیکھیں ۔اور باہم مل کر کچھ کھائیں پئیں اور خوش وقت ہوں۔
ہماری شادی کو دس برس گزر چکے تھے ۔لیکن ہم اولاد کی خوشی سے محروم تھے۔
’’ارے عاصم بھائی ۔کیا سوچ رہے ہیں ،آپ کا ناشتہ تو کبھی کا ٹھنڈا ہوچکا ۔نہ آپ نے چائے پی ۔نہ کچھ کھایا ۔خیریت ہے ۔؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں اپنے دفاع میں کچھ کہتا ۔۔۔ستار بھائی نے وہیں سے آواز لگائی ۔۔۔
’’چھوٹے ۔۔یہ ٹرے یہاں سے اٹھا لو ۔۔۔اورعاصم صاحب کی میز پر ایک نیا ناشتہ لگاؤ۔۔ ۔‘‘
لگتا تھا ستار بھائی جومجھے بہت اچھی طرح سے جانتے تھے مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور مجھے احساس ہوچلا تھا کہ اب ستار بھائی کے چائے خانے سے میرا آنکھ بچاکر نکلنا محال ہے یہ آخر مجھے کیسے جانتے ہیں ۔؟
تب اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک گیا ۔جب میری ملازمت کی نوعیت ہی ٹوؤر نگ ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اس قصبے میں اکثر آتا جاتا رہا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ جب میں اس محلے میں داخل ہوا تھا تو نہ تو گلی میں بیٹھے کسی کتے نے مجھے دیکھ کر احتجاج کیا تھا اور نہ ہی علاقے کے گھروں کی بالکونیوں میں بیٹھے کسی بڈھے نے مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھا تھا ۔
جیسا کہ دستور ہے کہ جب کوئی اجنبی کسی نئی آبادی یا محلے میں پہنچتا ہے تو سب سے پہلے تو علاقے کے کتے اُس کا بھونک بھونک کر استقبال کرتے ہیں اور اس کے بعد اگر وہ بچ بچاکر کسی طرح اندر علاقے میں پہنچ جاتا ہے ۔ تو پھر وہاں موجود لوگ باگ بطور خاص بوڑھے افراد جو خود کو علاقے کا چوہدری سمجھتے ہیں ،اس بات کو اپنا حق سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی نووارد کو نہ صرف گھوریں اور بری نظر سے دیکھیں بلکہ ہوسکے تو وہیں روک کر اس کا انٹر ویو لینا شروع کردیں ۔
لیکن جس ڈسٹرکٹ سے میرا چند ماہ پہلے اس ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر ہوا تھا اس میں توشام پور نام کی کوئی بھی جگہ میرے حلقہ اثر میں کبھی رہی ہی نہیں پھر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں یہاں پہلی بار آرہا تھا مگر اس کے باوجود نجانے کیوں یہ سارا ماحول۔۔ ستار بھائی کا چائے خانہ ۔۔کندن حلوائی کی لسی کی دکان ۔۔اور وہ گھروں کی بالکونیوں میں گھر کی کام کاج کرتی ہوئی عورتیں۔۔ اور نیچے گلی کے منظر کو تاڑتے ہوئے بڈھے ۔۔سب کا سب ایک خوابناک ماحول کی مانند مجھے دیکھا بھالا لگتا تھا؟اور کیوں مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے میں اس ماحول میں پہلی بار نہیں آیا بلکہ میں اس ماحول کا ایک حصہ ہوں ؟
پھر بھلا کیوں ستار بھائی مجھ سے اس قدر بے تکلفی اور خلوص سے مل رہے تھے ؟ایک بار ناشتہ میرے سامنے لگوا کر از سر نو نئے ناشتے کا کہہ چکے تھے ؟ نہ صرف یہ بلکہ وہ یہ بھی مجھ سے کہہ چکے تھے ۔۔ کہ وہ ذرا اپنے کاروبار سے فارغ ہوجائیں تو پھر مجھ سے تفصیلی بات کریں گے۔
اب بھوک مجھے بے حال کئے دے رہی تھی لہٰذا یہ سوچتے ہوئے کہ جلدی جلدی ناشتہ کرکے بل چکایا جائے اور ستار بھائی سے کسی بھی طرح بچ کر یہاں سے نکلا جائے ،ویسے بھی مجھے محکمہ پاپولیشن کے دفتر میں جانا تھا ۔
میں نے اپنے سامنے رکھی ٹرے میں سے پراٹھے کی پلیٹ ا پنے نزدیک سرکائی اور ایک لقمہ توڑ کر انڈے کے ساتھ نوالہ بناکر منہ میں رکھا ہی تھا کہ ایک بچے کو جس کی عمر بمشکل چھ سات برس ہوگی اپنے پاس کھڑے پایا ۔یہ سوچ کر کہ کسی صاحب کا بچہ اپنی میز سے اٹھ کر، جیسا کہ بچوں کا انداز ہوتا ہے چائے خانے کو دیکھتا پھر ر ہا ہے ۔میں چائے پینے والا تھا کہ اُس بچے نے جو مجھے بڑے پیار سے دیکھے جارہاتھامخاطب کیا :
’’ابو آپ کتنے دنوں کے بعد آئے ہیں اور گھر نہیں آئے۔امی آپ کو بلا رہی ہیں ۔‘‘
اُس ننھے سے بچے کے منہ سے یہ جملہ سن کر نوالہ جیسے میرے حلق میں پھنس گیا تھا ۔۔۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر ایک منٹ میری یہی حالت رہی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔بچہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر بھاگا ہوا ستار بھائی کے پاس گیا اور چلانے لگا ۔’’ستار۔ انکل ۔۔ستار انکل۔۔۔۔۔دیکھیں ابو کو کیا ہوگیاہے۔۔۔؟‘‘
پھر مجھے یاد نہیں میرے ساتھ کیا ہوا ۔؟کسی نے میرے چہرے پر پانی کا بھرا جگ انڈیل دیا تھا ۔۔۔
جب آنکھ کھلی تو میرے گرد لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔یہ جگہ ستار بھائی کا چائے خانہ نہیں تھا ۔ ایک پرانی وضع کا خوشنما گھر تھا ۔میں ایک سجے سجائے کمرے میں ایک بستر پر لیٹا ہو ا تھا اور میرے سامنے میری بیوی ریحانہ موجود تھی ۔یوں لگتا تھا جیسے میں نے دوسرا جنم لیا ہو۔
’’ریحانہ! تم یہاں۔۔شام پور میں کیا کررہی ہو۔۔؟‘‘ میں نے ہوش میں آتے ہی پہلا سوال کیا۔
’’ریحانہ نہیں ،میں آپ کی بیوی نسرین ہوں ۔لگتا ہے آپ کی طبیعت اتنی خراب ہوئی ہے کہ آپ کو ارد گرد کی کچھ خبر نہیں ۔‘‘
’’نسرین ۔۔کون نسرین ۔؟ میری بیوی کا نام تو ریحانہ ہے ،جو یہاں نہیں رہتی اور پھر وہ تو اس وقت اپنے سکول گئی ہوگی ۔ اگر تم نسرین ہو تو میں کون ہوں ؟اور میں کہاں ہوں ؟ یہ کس کا کمرہ ہے ؟ یہ گھرکس کا ہے ۔؟‘‘
لیکن ریحانہ کی ہمشکل عورت نے جو اپنا نام نسرین بتارہی تھی۔ مجھے انگلی کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا ۔اور اپنے بچوں کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگی۔
’’اپنے ان بچوں سے پوچھیں ۔آپ کی غیر موجودگی میں ہم سب کا کیا حال رہا ہے۔؟‘‘
’’اپنے بچوں سے ۔؟ مگر ہمارے تو کوئی بچے نہیں ہیں۔؟‘‘
’’یہ آپ ہی کا گھر ہے اور یہ دونوں آپ کے بچے ہیں ۔عامر اور نوشی ۔ ذرا دیکھیں تو سہی ان کے چہرے ۔آپ کے آنے سے دونوں کس قدر خوش ہیں اور ایک آپ ہیں کہ سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں ۔میں تو کہتی ہوں لعنت بھیجیں ایسی نوکری پر جس میں نہ گھر کا کوئی ہوش رہے نہ بیوی بچوں کی کوئی خبر ۔میں تو ستاربھائی کی مشکور ہوں کہ آپ کے پہنچتے ہی اُنہوں نے سب سے پہلے مجھے اطلاع بھجوائی جسے سنتے ہی عامر بھاگ کر آپ کے پاس پہنچ گیا ۔ایک آپ ہیں کہ آپ کو کچھ یاد ہی نہیں؟‘‘
واقعی وہ عورت جس بچے کو میرا بیٹا بتا رہی تھی ۔یہ وہی بچہ تھا جو مجھ سے ملنے ستار بھائی کے چائے خانے میں پہنچا تھا ۔اور جس نے میرے پاس آکر مجھ سے بڑے پیار سے بات کی تھی ۔ اسے کوئی بھی تیسرا شخص دیکھ کر میرا ہی بچہ بتا تا ۔وہ بالکل میری ہی تصویر تھا۔جبکہ کوئی چار پانچ برس کی بچی جسے وہ عورت میر ی بیٹی کہہ رہی تھی اور جس کا نام وہ نوشی بتا رہی تھی ،ہو بہو اپنی ماں یعنی ریحانہ کی تصویر تھی۔
یہ کیسا جہان طلسمات تھا ۔۔۔؟میں کہاں پہنچ گیا تھا ۔۔۔اور کس عہد کے سحر میں مسحور تھا ۔۔۔؟
وہ عورت جوبھی تھی اور اپنے آپ کو میری بیوی نسرین بتارہی تھی در حقیقت ریحانہ کی تصویر تھی بلکہ میرے لئے تو وہ ریحانہ ہی تھی ۔مجھ سے اُس کا باتیں کرنے کا انداز ۔۔اُس کی آواز ۔۔اُس کا لہجہ ۔۔سب کچھ وہی تھا ۔۔بس شام پور کا یہ محلہ ۔۔اُس کے گھر ۔۔بازار ۔۔ستار بھائی کا چائے خانہ۔۔اور پھر یہ گھر جس کے ایک سجے سجائے کمرے میں ۔۔میں ایک نہایت آرام دہ بستر پر دراز تھا ۔۔کمرے کے باہر کی جانب کھلتی ہوئی کھڑکیوں کے سامنے موجود بالکونی سے کمرے میں آتی ہوئی روشنی ۔۔اور میرے ارد گرد موجود کچھ نئے چہرے اور یہ دومعصوم بچے ، میرے لئے اجنبی تھے۔ستار بھائی مجھے یہاں پہنچا کر جاچکے تھے ۔۔۔اب شاید ریحانہ اور بچوں کے علاوہ یا تو اس گھر کے کچھ افرادتھے ۔۔یا پھر پڑوس کے ہمسائے تھے ۔
میرا سر چکرا رہا تھا۔۔۔۔جو کچھ میری نظروں کے سامنے تھا ۔۔۔۔وہ سب ناقابل فہم تھا ۔۔۔ پھر جیسے میرے اعصاب نے جواب دے دیا اور میں تھک ہار کر اپنے ارد گرد سے غافل ہو کر سو گیا تھا ۔۔۔
فون کی گھنٹی سے میر ی آنکھ کھلی تو کمرے میں بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ کی مدھم روشنی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ۔کھڑکیوں سے آتی روشنی ختم ہوچکی تھی۔میں اٹھ کر بیٹھا تو میر ی نظر سائیڈ ٹیبل پر لیمپ کے نیچے رکھے ہوئے ایک فریم پر پڑی ،جس میں لگی ہوئی ایک تصویر میں ۔۔میں ریحانہ اور وہ دونوں بچے موجود تھے ۔کمرے میں اس وقت میرے علاوہ کوئی اور نہ تھا ۔ریحانہ میرا مطلب اُس عورت سے ہے جس کا نام نسرین ہے اور جو خود کومیری بیوی بتا رہی تھی وہاں موجود نہ تھی ۔بچے باہر بالکونی میں بیٹھے کھیل رہے تھے ۔میر ی آہٹ سن کر لڑکا دوڑا ہوااندر آیااور مجھ سے پوچھنے لگا۔
’’ابو۔۔۔ اب آپ کیسے ہیں۔۔۔آپ کو کچھ چاہیئے۔۔۔؟‘‘
میں نے بچے سے ریحانہ کے بارے میں معلوم کیا تو بچے نے کہا۔۔۔
’’امی تو اس وقت کسی کام سے باہر گئی ہیں ۔۔۔آپ کو کچھ ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔۔ یا میں امی کو بلا لاؤں ؟
’’نہیں بیٹے ۔۔میں ذرا ستار بھائی کے پاس جارہا ہوں ۔۔امی سے کہنا میں ابھی واپس آتا ہوں۔۔‘‘
یہ کہہ کر میں تیزی سے کمرے سے نکلا ۔باہر کامنظر اب بد لا ہوا تھا ۔شام ساری آبادی پر ایک گھٹا کی مانند اتر رہی تھی ۔۔۔آسمان پر اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہوئے پرندوں کا ہجوم تھا ۔۔۔نیچے بازار میں کسی کسی دکان پر روشنیا ں جل رہی تھیں ۔گھروں کی بالکونیوں میں بھی صبح کی طرح بیٹھے مرد اور عورتیں دکھائی نہ دیتے تھے۔صبح کی نسبت شام کا منظر دل پر غبار کی طرح چھا رہا تھا۔میں تیزتیز قدموں سے چلتا ہوا س محلے سے باہر نکل آیا ۔سامنے سڑک پر موجود سواری نے مجھے تھوڑی ہی دیر میں شام پور کے اسٹیشن پر پہنچا دیا ۔ نصیب آباد کی طرف سے آنے والی ٹرین اتفاق سے پلیٹ فارم پر جیسے میری ہی منتظر تھی اور جونہی میں اس میں سوار ہوا وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔
میرے سامنے کھڑکی میں سے شام پور کا دور ہوتا ہوا قصبہ رات کی پھیلتی تاریکی میں گم ہورہا تھا ۔۔اور میری آنکھوں میں نیند کے گہرے بادل اتر رہے تھے ۔۔علی اُلصبح میں اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ۔۔اسٹیشن سے گھر پہنچا ۔۔تو خلاف معمول ریحانہ گھر پر موجود تھی ۔۔ اُس کے چہرے سے لگتا تھا جیسے وہ رات بھر جاگتی رہی ہو ۔
وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی ۔
’’آپ خیریت سے ہیں ۔۔۔میں تو رات بھر نہیں سوسکی ۔۔۔کیسا رہا آپ کا سفر۔۔۔؟‘‘
ایک ہی سانس میں وہ مجھ سے کئی سوال کر گئی تھی ۔۔۔۔ لگتا تھا جیسے وہ بھی میرے سفر کے حال سے پوری طرح واقف ہو ۔۔۔ادھر میں نے بھی اُس کا جواب دینے کے بجائے رکے بغیر اُس سے سوال کردیا تھا :
’’ریحانہ خیریت ہے ۔۔۔ تم گھر پر کیسے ہو ۔۔۔۔آج اپنے سکول نہیں گئیں ۔۔۔؟‘‘
’’سکول کیا جاتی ۔۔۔رات ایسا خواب دیکھا تھا ۔۔۔کہ میں پریشان ہوکر اٹھ بیٹھی ۔۔۔رات کے تین بجے تھے ۔۔۔آپ گھر میں نہیں تھے ۔۔۔میں نے کبھی خود کو اتنا تنہا نہیں سمجھا۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ۔۔۔نہ آپ کی کوئی اطلاع تھی ۔۔۔پھر یہ سوچ کر کہ آپ یقینا اس وقت واپسی کے سفر میں ہونگے ۔۔ ۔۔ یہیں لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے میں نے بقایا رات آنکھوں میں کاٹ دی۔۔۔ ‘‘
اُس کی بات کا کوئی جواب دینے کے بجائے ۔۔ اُس سے نظریں چراتے ہوئے میں نے ریحانہ کو چائے بنانے کا کہا ۔۔۔۔اور خود تائلٹ میں چلا گیا۔۔۔
باہر آکر سب سے پہلے اپنے ڈیپارٹمنٹ فون کرکے اپنے پہنچنے کی اطلاع کی۔۔ اور پھر طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے چھٹی کی درخواست دے دی ۔۔۔ریحانہ ابھی کچن میں ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ ویسے بھی ریحانہ کو میں کیا بتاتا۔۔۔کہ جہاں میں گیا تھا وہاں سب لوگ مجھے ایسے ملے جیسے میں وہیں کا رہنے کا والا ہوں ۔۔۔اور جیسے وہ سب صدیوں سے میرے منتظر بیٹھے تھے ۔۔۔یا پھر ریحانہ کو یہ بتاتاکہ میں جہاں گیا تھا ۔۔۔وہاں نہ صرف میراایک گھر تھا ۔۔۔بلکہ ایک بیوی بھی تھی۔۔۔ جو بالکل اُس کی ہمشکل ہی نہیں بلکہ جیسے خود اُس کا دوسرا روپ تھی ۔۔۔اور اُسی گھر میں مجھے منتظر دوبچے بھی ملے تھے ۔۔۔ایک لڑکا عامر اور ایک لڑکی نوشی ۔۔۔جو مجھے دیکھ کر خوشی سے بے حال تھے۔۔۔۔ اور بقول نسرین کے وہ میرے ہی بچے تھے ۔۔۔
کیا جگہ تھی ۔۔۔کیسے ملنسار لوگ تھے۔۔۔۔ ۔۔۔کیسے اچھے گھر اور اُن کے مکین ۔۔۔؟
سب میرے دلدادہ۔۔کوئی بھی مجھ سے شاکی نہ تھا ۔۔بالکونیوں والے پرانی وضع کے گھر ۔۔۔ایک محلہ جو میرے دل میں گھر کر چکا تھا ۔۔۔ستار بھائی کا چائے خانہ ۔۔اور اُس کے سامنے کندن حلوائی کی لسی کی دکان ۔
ریحانہ کے کچن سے باہر آنے سے پہلے میں نے جلدی جلدی ستار بھائی کے چائے خانے کا نمبر جو اُنہوں نے مجھے پہنچتے ہی دیا تھا ڈائل کیا ۔۔۔۔لیکن دیر تک گھنٹی بجتی رہی اور کسی نے فون کا جواب نہ دیا۔۔۔جیسے نمبر یا تو مصروف ہو یا پھر خراب ۔۔۔کافی انتظار کرنے کے بعد پھر اُس گھر میں جہاں میں چند گھنٹے ایک مہمان کی حیثیت سے گزارآیا تھا ۔۔ فون کیا ۔۔۔ لیکن ہر بار ایکسچینج نے یہ بتا کر میر ی کال کو منقطع کردیا ۔۔۔۔
’’معاف کیجئے ۔۔آپ کا ڈائل کیا ہوا نمبر کسی کے استعمال میں نہیں۔۔۔۔‘‘
۔۔۔معلوم نہیں نمبر خراب تھے۔۔۔یا میری انگلیاں غلط نمبر ڈائل کررہی تھیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی ابھی آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ اُس نے ایک دم چیخ مار کر اپنی بیوی کو بلایا۔وہ بیچاری سراسیمگی میں دوڑی
دوڑی آئی۔’’کیا ہوا؟‘‘
’’اب کیا ہو گا؟‘‘اس کا پاگل پتی اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا’’اپنا آپ تو میں اپنے خواب میں ہی
چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (جوگندر پال کا افسانچہ گمشدہ)