رشید امجد(اسلام آباد)
وہ مرشد کے ہمراہ ساحل کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں تلاش کرنے نکلا تھا، روانہ ہوتے ہوئے اس نے کہا تھا…… ’’حال کی صورت تو یہ ہے کہ نہ میری رائے کوئی اہمیت رکھتی ہے نہ میری محنت کے کوئی معنی ہیں، چلو دیکھیں شاید ماضی میں میری کوئی پہچان ہو۔‘‘
مرشد بولا…… ’’حال ٹھیک نہ ہو تو ماضی کی پہچا ن کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘‘
اس نے کوئی جواب نہ دیا، دونوں ساحل کے ساتھ ساتھ بادبانی کشتی میں اپنی جڑوں کی تلاش میں کہاں جا رہے تھے، اسے اس کی کچھ خبر نہ تھی۔ کشتی تیز ہوا کے رقص میں کسی ایسی منزل کی طرف رواں تھی، جس کے بارے میں گمان تھا کہ اس کی جڑیں وہاں ہیں۔
برسوں پہلے اسی طرح کی کشتی میں وہ اِدھر آیا تھا، واپس جانے کے ارادے سے، لیکن وہ واپس نہیں گیا، یہیں رہ گیا اور برسوں تک یہی سمجھتا رہا کہ اب اس کی جڑیں یہیں ہیں۔
ہو ا کے رقص میں ذرا ٹھہراؤ آیاتو کشتی کی رفتار سست پڑ گئی۔
مرشد بولا…… ’’ہر قوم جس کے پاس اپنے وقت کے نئے نظریات ہوتے ہیں، اپنے حال کی تعمیر کرتی ہے اور جب یہ نظریات پرانے ہو جاتے ہیں اور وہ قوم تازہ ہواؤں کے دریچے بند کر دیتی ہے تو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہے۔‘‘
’’تاریخ کا قبرستان‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں تاریخ کا بھی اپنا ایک قبرستان ہے،‘‘مرشد نے کہا…… ’’جہاں اَن گنت قومیں دفن ہیں اور ان کے ناموں کی تختیاں اب صرف تاریخی نام ہیں۔‘‘
دونوں اس قبرستان میں گئے۔ قطار در قطار قبروں پر ناموں کی تختیاں آویزاں تھیں۔ مرشد بولا…… ’’یہ سب اپنے اپنے وقت میں اپنی پہچان رکھتی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے قدم وقت کی رفتار کے ساتھ نہیں ملائے، سو ان کی جگہ وہ آگئے جو وقت کی صدا کو سن رہے تھے اور انہوں نے اس کا ساتھ دیا۔‘‘
اسے یاد آیا، جب وہ اِدھر آیا تھا تو بے شک ایک بے سروسامانی کا عالم تھا، لیکن ان کے خیالات تازہ تھے، جینے کا جواز تھا اور بہت کچھ کرنے کا حوصلہ، انہوں نے بہت کچھ کیا بھی، لیکن ساڑھے چھ سو سال کی حکمرانی نے انہیں دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ لیا، پھر ایک طویل ریگ زار ، وہاں سے نکلے تو اسی ریگ زار کی بدلی ہوئی صورت مقدر بنی، اب معلوم نہیں اس میں قصور کس کا تھا۔ ان کی تگ و دو کی سمت کا، یا نوے سال کی غلامی کا کہ وہ آزاد ہو کر بھی غلام ہی رہے۔ وہی چند خاص آدمی خاص رہے اور وہ جو عام آدمیوں کی طرح تھا، عام آدمی ہی رہا۔ نسل درنسل عام آدمی…… جس کے خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔
تاریخ کے اس قبرستان کے ایک کونے میں کھڑے کھڑے اس نے مرشد کو دیکھا، جو تختیوں پر لکھے نام پڑھ رہا تھا۔
’’وقت کیا شے ہے؟‘‘مرشد بڑبڑایا…… ’’فنا کا ایک ریلا جو ہر شے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتاہے۔‘‘
’’صرف نام اور پہچان باقی رہ جاتی ہے۔‘‘ وہ بولا…… ’’لیکن میری تو پہچان بھی گم ہو گئی ہے اور نام…… میرا نام میرے مشکوک ہونے کی علامت بن گیا ہے۔‘‘
اسی شک کو دور کرنے وہ اپنی جڑوں کی تلاش میں نکلا تھا…… اور جڑیں تو بہت دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں، ساحل کے ساتھ آبادیوں میں وہ موجود تھا اور نہیں بھی تھا۔ کہیں وہ تھا لیکن قبول نہیں کیا جارہا تھا اور کہیں قبول تھا لیکن وہ خود قبول ہونا نہیں چاہتا تھا۔
’’یہ کیا اسرار ہے، میں کہاں ہوں اور کہاں نہیں ہوں۔‘‘اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
مرشد نے اس کی سوچ کو محسوس کر لیا…… ’’تم نہ ماضی ہو نہ حال اور جن کا ماضی حال نہ ہو مستقبل بھی ان کا نہیں ہوتا۔‘‘
وہ بہت دیر تک چپ رہا، پھر بولا…… ’’میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن میرے بچوں کا کیا بنے گا، ان کی پہچان کیا ہے؟
کشتی ایک جگہ رک گئی۔ سمندر کے متلاطم سینے سے ابھرتی ایک بہت بڑی صلیب انہیں اپنی طرف بلا رہی تھی، اس نے حیرت سے دیکھا اور بولا…… ’’یہ صلیب اور یہ جگہ۔‘‘
مرشد ہنسا…… ’’اس کا آرکیٹکچر ان سے ہاتھ کر گیا۔‘‘
’’ان کو آخر تک معلوم نہیں ہوا؟‘‘اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔
مرشد آہستہ سے بولا…… ’’اب دیکھو نا، تیل ان کے پاس ہے لیکن اسے نکالنے کا طریقہ انہیں نہیں آتا اور نہ یہ اسے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اس نے سر ہلایا۔
’’اور وہ ان سے ہر بار ہاتھ کر جاتے ہیں۔‘‘ قدرے توقف کے بعد وہ بڑ بڑایا۔
’’یہ ہاتھ تو تمہارے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔‘‘
اس نے سوالیہ نظروں سے مرشد کو دیکھا۔
’’تمہارا شاہی محل بھی تو آٹھ کے ہندسے کی علامت ہے۔‘‘ مرشد ہنسا۔
اسے محسوس نہ ہوا کہ اس ہنسی میں طنز ہے یا تاسّف۔ لیکن یہ تاسّف تو تاریخ کے ہر صفحہ پر موجود ہے۔
اسے سوچ میں گم دیکھ کر مرشد نے پوچھا…… ’’کس سوچ میں گم ہو؟‘‘
’’ایک بات یاد آگئی ہے۔‘‘
مرشد نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’جس لڑائی میں ہماری قسمت کا فیصلہ ہوا، اس کی روداد بھی عبرتناک ہے، ہمارے سپاہیوں کی تعداد اکسٹھ ہزار تھی اور ان کے پاس اکیس ہزار تھے، ان میں سے بھی چودہ ہزار کرائے کے تھے، وہ خود صرف سات ہزار تھے۔‘‘
وہ چپ ہو گیا، بہت دیر چپ رہا، مرشد نے کچھ نہ پوچھا، وہ خود ہی بولا…… ’’ترپال یہاں کی ایجاد ہے لیکن اُس رات بارش میں ہم بارود پر ترپا ل ڈالنا بھول گئے اور انہوں نے اپنا بارود ڈھک لیا، صبح بارود توپوں میں ڈالاتو…… ؟‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔
مرشد کچھ دیر اس کی دیکھتا رہا کہ شاید وہ کچھ کہے، لیکن جب وہ کچھ نہ بولا تو مرشد نے کہا…… ’’بھول نہیں گئے، خیموں کی بزم آرائیوں میں اس کا خیال ہی نہیں رہا۔‘‘
’’ہزیمت…… ’’زوال ایک دفعہ آغاز ہوجائے تو پھر ہر قدم ہزیمت کی طرف ہی اٹھتا ہے۔‘‘وہ بڑبڑایا۔
دونوں کافی دیر خاموش رہے، پھر اس نے پوچھا…… ’’یہ عروج وزوال کیا ہے؟‘‘
’’جب قومیں وقت کی آواز کو سنتی اور اس پر عمل کرتی ہیں تو یہ عروج ہے اور جب وہ وقت کی آواز کو سننے سے انکار کر دیتی ہے تو یہ زوال ہے۔‘‘مرشد نے کہا۔
’’یہ انکار معذوری ہے یا کوتاہی؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’دونوں ہی‘‘مرشد نے جواب دیا…… ’’دیکھو نا جیسے ہر قبر اپنا مردہ طلب کرتی ہے، تاریخ کے قبرستان کی ہر قبر بھی اپنی قوم طلب کرتی ہے۔
’’تو عروج صرف ایک عرصہ ہے۔‘‘و ہ بولا…… ’’اوّل و آخر فنا ہی ہے۔‘‘
اسے کچھ سکون سا ملا، ’’یہ سبھوں کے ساتھ ہوتا ہے، پھر میں یہ رونا کیوں رو رہا ہوں۔‘‘
’’کیونکہ تم اپنے زوال کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہے۔‘‘
’’میں تو صرف اپنی جڑوں کو تلاش کر رہا ہوں کہ جان سکوں کہ میں ہوں کون اور وقت کے اس سیلِ رواں میں میرے لیے آگے کیا ہے؟‘‘
جڑوں کی تلاش کا یہ سفر ساحلوں کی ریت چاٹتا، شہروں کی روشنیاں سمیٹتا، اب کھلے سمندر میں آنکلا تھا، چاروں طرف موجیں مارتا پانی، اوپر کھلا آسمان اور چھوٹی سی کشتی، جس میں وہ اور مرشد چپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ کشتی نیم ڈولتی نیم چلتی بڑے سمندر سے نکل کر پانی کی ایک اور راہداری میں آگئی اور گزرتے گزرتے کالی بھوری مٹی ملی ریت کے ساتھ آلگی، رات نے ابھی اپنا بادبان کھولا ہی تھا، اس نے سر اٹھا کر دور…… بہت دور ٹمٹماتی سی روشنیوں کو دیکھا، معلوم نہیں روشنیاں تھیں بھی یا اس کا وہم تھا۔
’’وہ دور ٹمٹماتے دئیے۔‘‘وہ بڑبڑایا۔
مرشد نے دیکھا ، لیکن بتایا نہیں کہ اسے بھی یہ دئیے نظر آرہے ہیں یا نہیں۔
’’یہ بھی میرا ماضی ہے۔‘‘وہ بولا…… ’’سات سو سال ہم وہاں رہے لیکن یا عبرت!…… پھر ایک ہزار سال تک دریائے کبیر کی لہروں نے اذان کی آواز نہیں سنی۔‘‘
’’وقت کے ہر لمحہ پر عبرت کانشان موجود ہے۔‘‘مرشد نے کہا…… ’’لیکن صرف ان کے لیے جو اسے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ میری تاریخ ہے‘‘ا س نے جیسے خود سے کہا۔
’’لیکن جغرافیہ کے بغیر تاریخ کے کوئی معنی نہیں۔‘‘ مرشد بولا…… ’’اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جغرافیہ کے باوجود تاریخ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔‘‘
اس نے سراٹھا کر مرشد کی طرف دیکھا، مرشد اس کی آنکھوں میں ٹمٹماتے سوال کو پڑھ لیا اور بولا…… ’’تاریخ گم ہو جائے تو جڑوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’یہ تلاش بھی عجب شے ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا…… ’’ہم ہمیشہ کچھ نہ کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں ، مجھے دیکھو، میں کبھی حقیقت الحقیقت کی تلاش میں تھا اور اب خود کو ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
مرشد ہنسا…… ’’یہ تو بھول بھلیاں ہیں، اپنی تلاش، اس کی تلاش، سب ایک ہی سفر کے مختلف مرحلے ہیں۔‘‘
کچھ دیر چپ رہا پھر بولا…… ’’لیکن یہ اپنی جڑوں کی تلاش، اپنی تلاش نہیں بلکہ اپنے ڈولتے وجود کو سہارا دینے کی کوشش ہے۔‘‘
’’میرا وجود گملے میں نہیں اُگا، میری جڑیں زمین میں ہیں۔‘‘ اس نے جھنجلاہٹ سے کہا…… ’’میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جڑیں پھیلتے پھیلتے کہاں کہاں پہنچی ہیں، کیسے کیسے تناور درخت بنی ہیں۔‘‘
’’اور پھریہ درخت کیسے کیسے اور کس کس خزاں کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘مرشد کے لہجے میں طنز تھا۔
اس نے اس طنز کو محسوس نہیں کیا، اپنی روانی میں بولتا رہا…… ’’مشرق سے مغرب تک میری نشانیاں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔‘‘
مرشد خاموش رہا۔
سمندر کے دوسرے کنارے ٹمٹماتی روشنیاں موجود تھیں یانہیں، لیکن اس نے انہیں دیکھا، دیکھتا رہا، پھر بولا…… ’’یہ سات سو سال بھی عروج و زوال کی نہ بھولنے والی داستان ہیں، اس داستان میں بھی دو بڑے کردار ہیں، ایک کو یورپ والے لے گئے اور وہ ابوالعلم کہلایا، میں نے اسے نہیں اپنایا، جسے میں نے اپنایا اس نے مجھے کل اور جزو میں ڈال کر واہمات میں دھکیل دیا۔‘‘
’’تم نے صرف اپنے اندر جھانکا۔‘‘ مرشد نے کہا…… ’’اور باہر سے بے خبر ہو گئے۔‘‘
’’لیکن اب میں جاگ گیا ہوں۔‘‘
’’تمہارا جاگنا، ان درویشوں کا جاگنا ہے جو اپنے کتے کے ساتھ غار میں سو گئے تھے، جب جاگے تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔‘‘
اس نے سوالیہ نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا۔
’’پرانے حلیہ کے ساتھ غار سے نکل کر شہر میں آؤ تو اجنبی ہو جاتے ہیں اور اجنبیوں سے ہر کوئی بدکتا ہے۔‘‘
وہ سوچ میں پڑگیا…… ’’میں تو اپنی جڑیں تلاش کرنے نکلا تھا اور مرشد مجھے اجنبی بنانے پر تُلا ہوا ہے۔‘‘
’’میں اجنبی کیسے ہوں؟‘‘ اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’پچھلے چھ سو سالوں سے تم نے علم کی دنیا میں ایک کومے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔‘‘
مرشد نے جواب دیا…… ’’صرف اپنی ذات کے تالاب میں ڈوبے رہے، اس تالاب پر کتنی کائی جم چکی ہے تمہیں اس کا اندازہ ہی نہیں۔‘‘
’’تو میں ایک مینڈک ہوں جو اپنی ذات کے تالاب میں ٹرائے جا رہا ہے۔‘‘وہ بڑبڑایا۔
بہت دیر خاموشی رہی، دور…… بہت دور ساحل پر ٹمٹماتی روشنیاں رات کے گہرے بادبان میں چھپ گئی تھیں، لہروں پر ڈولتی کشتی ساحل کے ساتھ لگی کچھ دیر کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔
اس نے دیکھا ، ستاروں بھرے آسمان کے نیچے ، کشتی میں اس کے سامنے بیٹھا مرشد ہیولہ سا لگ رہا تھا۔
’’واپس چلتے ہیں۔‘‘اس نے کہا…… ’’میری جڑیں وہیں ہیں جہاں سے میں آیا ہوں۔‘‘
مرشد نے اثبات میں سرہلایا…… ’’پہلے اپنے آپ کو تو ٹھیک کر لو، پھر دنیا میں انقلاب لانے نکلنا۔‘‘
وہ خاموش رہا۔
کشتی واپسی کے سفر پر چل پڑی۔