جوگندر پال(دہلی)
وہ بارہ تیرہ سال کی بڑی معصوم شکل کی چھوکری تھی۔ دروازہ کھلتے ہی پہلے تو مجھے دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ جھٹ سے پیچھے کر لیا اور پھر جھجکتے ہوئے اسی ہاتھ کو آگے بڑھاکر بولی۔ ’’یہ چٹھی!․․․․․․․․․․․‘‘
میں اس کے ہاتھ سے کاغذ کا پرزہ لے کر پڑھنے لگا۔
جناب عالی، میں آپ کے محلے میں ہی رہتا ہوں۔ کبھی بہت اچھے دن دیکھے تھے۔ آج بہت نازک صورت حال سے دو چار ہوں ۔ اپنی بیٹی کو بھیج رہاہوں، ممکن ہو تو کم سے کم پانچ روپے بھیج دیجئے تاکہ گھر میں ہانڈی پک سکے ۔ آ پ کے پیسے جلدہی لوٹا دوں گا۔ شریف آدمی ہوں مگر․․․․․
میں نے آخری دو سطریں پڑھے بغیر چٹھی لکھنے والے کا نام دیکھنے کے لیے نظر نیچے سرکالی ․․․․․․․․جاگیردار․․․․․․․․اور جیب سے پانچ کا نوٹ نکال کر لڑکی کے ہاتھ میں تھمادیا۔
مجھے یہاں رہائش اختیار کیے پور ا ایک ما ہ بھی نہ ہوا تھا اور اتنے بڑے محلے کے سبھی لوگوں سے تو کیا،اپنے فوری پڑوسیوں سے بھی ابھی تک ناواقف تھا․․․․․․․․․․ہوگا کوئی غریب بے چارہ ․․․․․․․․․․میں دروازہ بند کرکے واپس اندر آگیا۔
اس واقعے کو کوئی ڈیڑھ دو ماہ ہولیے۔میں ایک دن سنیما کے میٹنی شو کے لیے جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
دروازے پر وہی لڑکی کھڑی تھی۔مجھے خیال آگیا کہ شاید پیسے لوٹانے آئی ہے۔
’’یہ چھٹی !․․․․․․․․․‘‘
اس کے باپ نے اسی عبارت کے ساتھ پھر پانچ روپے مانگ بھیجے تھے۔میں نے جلدی سے جیب سے دوروپے نکالے اور لڑکی سے کہا۔ ’’یہی لے جاؤ۔‘‘
لڑکی چلی گئی تو مجھے شرمندگی سی ہوئی․․․․․․․․․․․․کوئی ایسی مجبوری ہی ہوتو سفیدپوش اس طرح ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ مجھے پانچ ہی بھیج دینا چاہیے تھے۔
اس کے بعد وہ لڑکی مجھے تین چار ما ہ تک نظر نہ آئی اور پھر ایک دن دروازے پر ویسی ہی کھٹکھٹاہٹ ہوئی۔
وہی لڑکی کھڑی تھی۔
’’یہ چٹھی!․․․․․․․․․․․‘‘
جاگیردارنے عین اسی عبارت میں اب کے دس روپوں کا مطالبہ کیاتھا۔ میں نے مسکراکر لڑکی کے ہاتھ میں اس دفعہ بھی دو کا نوٹ تھمادیا اور یونہی سوچنے لگا کہ بھلا آدمی اسی طرح مانگ کر وقت کاٹنے کا عادی معلوم ہوتاہے․․․․․․․․․․․چلو میں نے دوہی تو دیئے ہیں۔ سر جھٹک کر میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
گزشتہ سات آٹھ ماہ کے بیشتر ایام میں نے کاروبار کے سلسلہ میں گھر کے باہر بتائے۔ اس دوران وہ لڑکی کبھی آئی ہوتو مجھے معلوم نہیں ۔آج صبح کے وقت میں دودھ والے کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی کی آواز سن کر میں برتن لے کر باہر آگیا کہ دودھ ڈلوالوں۔ دروازے پر دودھ والے کی بجائے ایک اد ھیڑعمر شریف پوش شخص کھڑا تھا۔
’’میرا نام جاگیردارہے۔‘‘
’’آئیے۔‘‘
’’نہیں ، مختصر سی بات کرنا ہے۔ یہیں کہے دیتا ہوں۔‘‘
’’کہیے۔‘‘
اس بار لڑکی کو چٹھی دیر کر نہیں بھیجا،آپ ہی حاضر ہوگیاہوں․․․․․․․․․․․․مجھے آپ سے یہ درخواست کرنا ہے کہ․․․․․․․․
میں نے اسے روپیہ دوروپے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
’’نہیں ، ٹھہریے، پہلے میری گزارش سن لیجئے․․․․․․․․․․․میں اپنی چٹھیوں میں جو رقم لکھوں ، مہربانی کرکے آپ وہی بھیجا کریں۔ ‘‘میں اس کی طرف حیرت اور غصے سے دیکھنے لگا۔
’’میری بیٹی اب پوری جوان ہوچکی ہے جناب ، اب تو آپ کو پورے ہی پیسے چکانے ہوں گے!!‘‘