جوگندر پال(دہلی)
کوئی واردات بدن کا گھیراتوڑ کر روح کو جالیتی ہے تو عمر بھر جو ں کی توں لیے رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس پوری نصف صدی میں یہ خواب بار بار میری نیند میں رینگ آیا:
سب سے آگے گائیں ہی گائیں چلی آرہی ہیں اور اُن کے پیچھے گندے گول مٹول اجول بچے ، اور بچوں کے پیچھے برف براق پر ندہ ڈاڑھیوں والے بوڑھے اور ــــ ․․․․․․سب سے آخر میں․․․․․․․
مگر میں وہ پوری واردات ہی کیوں نہ بیان کردو؟
تقسیم ملک کے موقع پر شہر اور گاؤں میں فسادات بپا تھے، کچھ اس طرح ، کہ جو جان بچانے کے لیے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے اُنہی کو جو انمرد سمجھاجاتا ۔
جمگھٹ کے جمگھٹ وہاں سے یہاں آرہے تھے اور یہاں سے وہاں جارہے تھے۔
آخر ہم بھی سیالکوٹ سے ڈیرہ بابانانک آن پہنچے ۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تھے تو ہمیں یکسر علم نہ تھا کہ ہمیں کہاں جاناہے ․․․․․․سر حد پار؟․․․․․․کونسی سرحد؟مرے مکوں کیا معلوم ، انہیں کون سی سرحد پار کر کے کہاں پہنچنا ہے؟ مگر جہاں کہیں ہماری گاڑی رک جاتی ہم سبھی مردے اِس خوف سے سانس بھرنے لگتے کہ ہم دوسرے جہاں کے کنارے آلگے ہیں، ابھی وہ آناََ فاناََنعرے بلند کرتے ہوئے ہمارے ڈبے میں آگھسیں گے اور روحوں سمیت ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔
مگر ہم سرحد پار آن پہنچے․․․․․․یہاں ، ڈیرہ بابا نانک ، جہاں ہم نے کیا دیکھا کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہم چہار سمت کٹے پڑے ہیں ․․․․․․․یہاں ہاتھ ، وہاں پیر ، وہاں جگر کالوتھڑا ․․․․․․․وہ کسی عورت کا گچھا مچھا پستان اور یہ سکڑا ہوا عضو تنا سل ․․․․․․․اتنا سکڑا ہوا، کہ کسے پتہ ، ہندوکا ہے یا مسلمان کا؟
مگر ہمارے ہی ساتھ ایک نراپراپاگل بھی آگیا تھا۔ ایک بے نام پاگل ، جس کے بارے میں کوئی کچھ نہ جانتا تھا۔ نہ جانے ، پاکستان میں کہاں سے بھاگ کر ہمارے رفیوجی کیمپ میں چلا آیا تھا ۔ پگلا کبھی تو چلانے لگتا․․․․․․․․نہیں ، مجھے مت مارو۔ میں ہندوہوں․․․․․․․․یہ دیکھو!․․․․․․․وہ اپنی قمیص اٹھا کر پاجامے کا ناڑا کھولنے لگتا ․․․․․․․یہ دیکھو! اورکبھی ․․․․․․․․نہیں، مجھے مت مارو۔میں مسلمان ہوں ․․․․․․․․یہ دیکھو!․․․․․․․․پگلے کی نظر اچانک زمین پر ایک کٹے ہوئے عضو تناسل پر جاپڑی ۔ وہ گھبرا کر اپنا ہاتھ پاجامے کی طرف لے گیا اور شاید وہاں کچھ نہ پا کر دوڑ کر بے اختیار عضوتناسل کو اٹھالیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُسے ٹٹولنے لگاکہ کسی اور کا ہے یا اُسی کا۔
رونے کے ہزار اسباب ہوں تو کوئی لاشعوری طور پر یہی چاہتا ہے کہ ذراہنس لے۔ہم کئی لوگ اُس کے ارد گرد جمع ہوگئے۔
نہیں ، میراہی ہے!․․․․․․․پگلا اپنے آپ کو یقین دلارہا تھا․․․․․․․․
’’تمہارا کیسے ، باؤلے ؟اِدھر تو صرف مسلمانوں کو کاٹا گیا۔‘‘
’’اچھا؟‘‘پاگل نے ایک دفعہ پھر عضوتناسل کو ٹٹولا۔ ’’اچھا!۔۔‘‘اس کی سمجھ میں آنے لگا کہ پھر وہ بھی کوئی مسلمان ہی ہوگا ۔ اس نے نا معلوم کیا سوچ کر اپناگلہ دبوچ لیا اور اسے اتنے زور سے دبا یا کہ اس کی آنکھیں باہر ابھر آئیں ۔ مُسلے !۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔مسلے!میری آنکھوں کے سامنے تم نے میرے بوڑھے ماں باپ کو قتل کیا اور میری بہن سے زنا کیا اور۔ اور ․․․․․․․․․․․․․․․․․․آگے بڑھ کر اسے کوئی اسی سے چھڑانہ لیتا تووہ اپنا دم لے کر ہی دم لیتا۔
اتنے میں ہجوم میں افواہ گرم ہونے لگی کہ تھوڑی ہی دیر میں مسلمان پناہ گزینوں کا ایک پیدل قافلہ سر حد پار کرنے کے لئے یہاں سے گزر رہا ہے ۔بس پھر کیا تھا سبھی لوٹ مار کے لئے بر چھے بھالے سنبھالنے خیموں کی طرف دوڑ کھڑے ہوئے تاکہ سب سے پہلے موقع اور مطلب کی جگہ پر قبضہ جمالیں۔
مجھے اپنی پشت سے ایک تلک دھاری آواز سنائی دی۔ ’’ہماری کوم پر گتی کیا کھاک دھول کرے گی ۔ یہ شبھ اَوسَر مُسلوں ملیچھوں کھتم کرنے کا ہے یا دھن دولت لوٹنے کا؟․․․․․․․․․․‘‘
’’اوئے پنڈتا ، یہ نیک کام کرنے کو ہم جوہیں۔ آؤدوستو!‘‘
مگر اسی اثناء میں رفیوجی کیمپ کے دفتر سے لاؤڈاسپیکر پر آواز سنائی دی :بھائیو، دھیان سے سنو!اِدھر سے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ اُدھر جارہا ہے، اور اُدھر سے ہندوؤں اور سکھوں کا ایک بہت بڑا قافلہ اِدھر آرہا ہے․․․․․․․․․اگر ہم نے اِدھر کوئی گڑبڑکی تو اُدھر وہ لوگ ہمارے سیکڑوں ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے سے باز نہیں آئیں گے ․․․․․․․․․․ساودھان، بھائیو!بھول کر حملہ مت کروصرف دور سے دیکھواور جانے دو․․․․․․․․․ساودھان!
لوگ مایوس ہوکر سرحد سے جڑی ہوئی شاہراہ کی طرف بکھرنے لگے جہاں سے مسلمان پناہ گزینوں کو گزرنا تھا۔
بھائیو،دھیان سے سنو!ادھر سے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ ․․․․․․․․
میں نے آواز سے کان ہٹا کر اس پاگل کی طرف دیکھا جسے ابھی تک سمجھ میں نہ آپارہا تھا کہ اس کا عضو تناسل بالائی رانوں کے درمیان لٹکے لٹکے ایک دم کہاں غائب ہوگیا، مل جاتا تو وہ فوراََ اپنی تسلی کر لیتا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان۔
میں وہیں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھ کر اس کی حرکات و سکنات کاجائزہ لینے لگا۔
پاگل کا ذہن خالی ہو کربھائیں بھائیں نہیں کر رہا ہوتا۔ ناگہاں سوچوں کی یلغار ہی تو بے چارے کو پاگل بنائے ہوتی ہے۔ وہ بھی یکبار گی اپنی کسی پیش قدم سوچ کی ترغیب نہ لاپایااور اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے انسانی اعضاء کو اٹھا اٹھا کر کوئی پوری شکل تیار کرنے میں جٹ گیا۔ تادیر وہ اپنی اس کوشش میں جٹارہا اور میں اسے منہمک دلچسپی سے دیکھتارہا۔و ہ بڑے جتن سے کوئی شکل بنا تا اور اس پر آنکھیں جما کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے اعضاکی تر تیب کو بگاڑ دیتا اور ازسر نوکوئی اور شکل بنانا شروع کر دیتا ۔اس نے کئی شکلیں بنائیں اور ہر بار مایوس ہوکر اعضاکو منتشر کر دیا۔ مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کوئی شکل پھنسی ہوئی ہے اور اسے بڑی اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہے اوروہ اسے ذہن سے باہر نکال کر اپنی نجات کی تدبیر کر رہاہے۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اچھل پڑا اور خوف سے چند قدم پیچھے ہٹ کر اپنی بنائی ہوئی نئی شکل کو گھورنے لگا۔ مڑے تڑے انسانی اعضاء سے ترتیب دی ہوئی وہ ایک نہایت بدوضع عفریت صفت حیوان کی شکل تھی جو جھپٹ کر پاگل کے جسم میں دانت گار لینا چاہ رہی تھی۔
خوفزدہ پاگل نے چیخ ماری اور جو بھا گنا شروع کیا تو ایک سیدھ میں شاہراہ کے ایک دور افتادہ موڑ کی طرف بھاگتا ہی چلا گیا جہاں سرحد کی طرف بڑھے ہوے مسلم مہاجروں کے قافلے کی گرد اڑ رہی تھی۔
میں اس خیا ل سے بہت خوش تھا کہ آخر کار پاگل عفریت کو ذہن سے خارج کرنے میں کامیاب ہو گیاہے۔ وہ ا بھی تک سر پٹ دوڑے جارہا تھا۔ جب اپنے آگے درختوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو میں منہ موڑ کر شاہراہ کے ایک قریبی کنارے کی طرف قدم اٹھانے لگا۔
سڑک کی دو جانب تھورْے فاصلے پر ایک فوجی تعینات تھا، تاکہ مسلم مہاجر بہ حفاظت سر حد پار کر جائیں ۔ ہر فوجی کے پیچھے ہندو اور سکھ شر نار تھیوں کی بھیڑبڑھتی جارہی تھی ۔ ذرا اور آگے آکر خوش قسمتی سے مجھے ایک خالی کنارہ مل گیا۔ میں وہاں رک کر سگریٹ سلگا نے لگاتو فوجی گارڈنے مجھے شک کی نظروں سے دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونے کی ہداہت کی۔
میں نے فوراَپیچھے ہٹ کر ایک درخت کے تنے پر پیٹھ لگالی اور قافلے کا انتظار کرتے ہوئے اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگا۔فسادیوں نے ہمارے گھر پر بھی ہلہ بول دیاتھا۔ وہ تلواریں کھینچے میری طرف لپکے تھے کہ بیچ میں ماں آگئی اور تلوارکے وار سے تڑپ تڑپ وہیں دم توڑ دیا۔ فسادیوں نے مڑ کر یہ بھی نہ دیکھاکہ کون مراہے ، میں یا میری ماں۔
میں گھر کے آنگن میں ہی ماں کی ارتھی جلانے کے لئے چولہے کی لکڑیاں جما رہاتھا کہ دو سکھ فوجی دھپ دھپ گھرمیں گھس آئے ۔نکلو!چلو!․․․․․․․․لیکن میری ماں ؟․․․․․․․․․جو مر گیا، اسے چھوڑو اور خود کو بچاؤ!․․․․․․․․․․
سڑک پر پہرہ دیتے ہوئے فوجی نے میری طرف پھرشک بھری نظروں سے دیکھااور اب کے میں خود آپ ہی درخت سے ٹیک ہٹا کر دو قدم پیچھے آکھڑا ہوا، اور اسی دوران قافلے کا اگلاحصہ ہمارے قریب آپہنچا۔
آگے آگے گوری اور بھوری صحت مند گائیں تھیں کہ وہ تھے کہ ہندوگائیوں پر کبھی حملہ نہیں کریں گے․․․․․․․․․گائیوں کے پیچھے گول مٹول گندے گندے بچے تھے جو نڈھال ہونے کے باوجودبڑے اجول لگ رہے تھے․․․․․․․․․․․اُنہیں معلوم تھا، ہندو بچوں کو بھگوان کا روپ مانتے ہیں ․․․․․․․سہمے ہوئے بھگوان اپنے تھکے ماندے پھولے ہوئے ننگے پیروں سے بے اذیت چل رہے تھے․․․․․․․․․․بچوں کے پیچھے نحیف بوڑھے ، جن کی کانپتی ہوئی سفید ڈاڑھیوں میں پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ کا احساس ہوتاتھا․․․․․․․․․․اورہر بوڑھے کو کوئی جوان سہارا دے رہاتھاکہ بوڑھوں پر ترس کھاکر جوانوں پر بھی کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا․․․․․․․․․اور ان کے پیچھے ہائے ہوکرتی ہوئی بوڑھیاں اور چلتے پھرتے بھی بوڑھیوں کی خدمت کرتی ہوئی ان کی جوان بہوبیٹیاں ․․․․․․․․․․ان خدمت گزار بہوؤں اور ان کی کوری کنواری نندوں کو کیسے کوئی میلی آنکھ سے دیکھ سکتاہے؟․․․․․․․․․․اور ان کے پیچھے ادھیڑ عمر ملے جلے مردوزن ، بلبلاتے شیر خواروں کو بازوؤں اور کندھوں پر لئے ہوئے ۔ سبھوں کے گلے میں اﷲاکبر کا نعرہ اٹکا ہوا تھاجو سرحد پار کرتے ہی وہ پورا منہ کھول کر اتنے زور سے بلند کریں گے کہ واقعی کوئی معجزہ رونماہوجانے کا گمان ہونے لگے گا․․․․․․․․․․اور ․․․․․․․․
اور․․․․․․․․․ارے!․․․․․․․․․․سب کے پیچھے کسی زارونزارماں کے پہلو میں اس کا بچہ اپنے کندھے پر دونوں بازوؤں میں نہایت ہوشمندی سے سمٹے ہوئے․․․․․․․وہ!․․․․․․․․․وہی ہمارا پاگل!․․․․․․․․․․․․
دیکھئے بھائی،․․․․․․․․․․․․میں نے بھونچکاہوکر فوجی کو بتانا چاہا کہ وہ پگلاتو ہمارے ساتھ ادھر سے ہی آیا تھا۔
شی۔ہی۔!فوجی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اشارے سے مجھے اور پیچھے ہٹ جانے کی ہدایت کی۔
میری آنکھیں پگلے سے ہٹائے نہ ہٹ رہی تھیں ․․․․․․․․․․․مسلمان ہے؟․․․․․․․․․․․نہیں ، ہندو ہی تو ہے۔․․․․․․․․․․․تو․․․․․․․․․․تو․․․․․․․․․․․․
دیکھئے بھائی․․․․․․․․․․․․․
شی۔ی!․․․․․․․․․․․!