صادق باجوہ
نعت گوئی کا سلیقہ قدرتِ حق کی عطا
ہوں فنا حُبِّ پیمبرؐ میں تو ملتی ہے بقا
ہے غلامی و اسیری بادشاہی سے عزیز
تشنگانِ حق کو مل جاتاہے خود اپنا پتا
زندگی بھر اک نویدِ جانفِزا ملتی رہی
مانگنے والا بھی پائے گر اُٹھے دستِ دعا
اُسوۂ کامل ہوا، اَخلاق کی تکمیل بھی
جاں کے پیاسوں کیلئے بھی وہ مجسم تھا دعا
سن کے شانِ مصطفیٰؐ یوں انبیا گویا ہوئے
ہے تمنّا یہ ، خدایا !اُس کی امت سے اُٹھا
رحمۃُلِلعالمیںؐ، خیرالوریٰؐ، یکتا وجود
سب جہاں کے واسطے اُٹھتا رہا دستِ دعا
وَرطۂ حیرت میں ڈوبی تھی نگاہِ دشمناں
دشمنِ جاں ہو گئے کیونکر فِدائے مصطفیٰؐ
ہر گھڑی ہر آں ستم سہنے کا یارا تو ملا
اِبتلا میں دیکھ کر لیکن عدو کو دی دعا
ہے تمنّاگرکبھی دیدار ہو صاؔدق تو پھر
ہو لبوں پر وِرد ہر دھڑکن کہے صلّ ِ علیٰ