رؤف خیر(حیدرآباددکن)
یہ احترام ، یہ اکرام کیسے نکلے گا
مِرے قلم سے ترا نام کیسے نکلے گا
اگر شہید نہیں ہے تو پھر تو غازی ہے
وہ کارزار سے ناکام کیسے نکلے گا
میں جانتا ہوں مجھے رات کاٹنی ہو گی
اب آفتاب سرِ شام کیسے نکلے گا
بنانے والا تو بگڑی بنا ہی دیتا ہے
تو سوچتا تھا مرا کام کیسے نکلے گا
بھگت رہے ہیں سزائے گناہِ ناکردہ
ہمارے سر سے یہ الزام کیسے نکلے گا
جو لا مکاں ہے اسی کو نکالنا ہوگا
ایودھیا سے بھلا رامؔ کیسے نکلے گا
نہ برف زار، نہ پنجاب ہی نکل پایا
تو پھر یہ ہاتھ سے آسام کیسے نکلے گا
میں صاحبانِ قلم کی کتابِ خوش ۱ میں نہیں
تو میرے نام یہ انعام کیسے نکلے گا
کلامِ خیرؔ تو تم نے ابھی پڑھا ہی نہیں
خیالِ حافظ و خیام کیسے نکلے گا
۱ کتابِ خوشGood Book=