نصرت ظہیر (دہلی)
خامشی اظہار بنتی جا رہی ہے
شاخِ گل تلوار بنتی جارہی ہے
آنگنوں میں کھلتی جاتی ہیں دوکانیں
ہر گلی بازار بنتی جارہی ہے
درد میں اک آسرا تھا بے خودی کا
وہ بھی اب ہشیار بنتی جارہی ہے
صلح کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں
بیچ میں دیوار بنتی جا رہی ہے
بستیوں کو چھوڑئیے یہ دیکھئے گا
اک سڑک ہموار بنتی جارہی ہے
زندگی اقرار تھی کل تک تونصرتؔ
آج کیوں انکار بنتی جا رہی ہے