نصرت ظہیر (دہلی)
نشاں قدم کا سرِ رہگزر نہیں آتا
بہت دنوں سے کوئی بھی ادھر نہیں آتا
کوئی کچھ اِس کے لئے چھوڑ کر نہیں آتا
دلِ تباہ مگر راہ پر نہیں آتا
سفر سے لے کے جو گردِ سفر نہیں آتا
وہ راستے پہ عموماًنظر نہیں آتا
پھر اپنے ساتھ بھی رہ پاؤں یا نہ رہ پاؤں
تمہارے ساتھ یہی سوچ کر نہیں آتا
اجالے اوڑھ لئے ہیں یہاں اندھیروں نے
تبھی تو ٹھیک سے اب کچھ نظر نہیں آتا
کہاں پہ کب کسے ہمراہ لے کے چلنا ہے
کبھی کبھی یہ ہنر عمر بھر نہیں آتا
یہ دل جو شوق کو مہمیز کرتا رہتا رہتاہے
جدھر پہونچنا ہے اکثر ادھر نہیں آتا