ایوب خاور(کراچی)
پوچھتے ہو کہ یہ کیا رکھا ہے آئینے میں
ایک جادو سا جگا رکھا ہے آئینے میں
یہ جو میلہ سا لگا رکھا ہے آئینے میں
کون مہمان بلا رکھا ہے آئینے میں
ایک صحرا تو مرے سینے میں بَل کھاتا ہے
دوسرا لاکے بچھا رکھا ہے آئینے میں
وقت نے نوچ اُڑایا ہے ہر اک منظرِ خوش
اک ترا عکس بچا رکھا ہے آئینے میں
چشم و لب، عارض و ابرو و خمِ زلفِ رسا
کس نے یہ حشر اُٹھا رکھا ہے آئینے میں
ایک فتنہ جو ستاتا تھا بہت پہلو میں
تھپکیاں دے کے سُلا رکھا ہے آئینے میں
اک دِیا رات کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے
اک دِیا ہم نے جلا رکھا ہے آئینے میں
نیند تعبیر کے جھونکوں میں اُڑی جاتی ہے
خواب کو ہم نے جگا رکھا ہے آئینے میں
آکے دیکھو تو سہی جانِ جہاں! جہانِ جہاں!
ہم نے اک پھول کھلا رکھا ہے آئینے میں