اکرام بریلوی(امریکہ)
( ایک تجزیاتی مطالعہ)
عبداللہؔ جاوید جو اعلٰی تعلیم سے بہرہ ورہیں ،عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔۔۔۔افسانوی ادب اور سنجیدہ کا لم نگا ری کے رموز سے واقف ہیں ، ان کے تین دیدہ زیب شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔۔۔ انہوں نے خود اپنے نظریہ شاعری سے متعلق کئی اجمالی اور تفصیلی خیالات کا اظہار کیا ہے جسکا لُبِ لُباب کچھ اس طرح ہے۔
’’ میری رائے میں شا عری صنّا عی نہیں بلکہ خلّاقی ہے اور خلّا قی کو خالص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔۔۔ شعر وارد ہوتا ہے ، لایا نہیں جاتا ۔ جب وہ آتا ہے تو اپنے ساتھ وہ سب کچھ لاتا ہے جسکو ہم فارم ، اسلوب ،آہنگ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ متنوّع اور مختلف فارم شاعری کے خلّا قانہ عمل میں ممد و معاون ہو تے ہیں ۔۔۔۔۔ شعر میں خواہ خطابت کی روح ہو، خواہ فکر کا عنصر ، جذبے کی آمیزش ہو کہ احساسِ جمال کا رچاؤ، شعر اوّل اور آخر شعر رہتا ہے اور اسکو شعر کے طور پر دیکھنا ہی صحیح ترین عمل ہے۔۔۔۔۔۔ ابہام ، ابلاغ میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ا س سے معنوں میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔جس بات کو ہم روایت سے بغاوت کہتے ہیں۔وہ بھی روایت کے پس منظر میں نمو پاتی ہے ۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن میری رائے میں بکھری بکھری ،ریزہ ریزہ بے نام سی چیزوں کو زندگی دینا شاعری کی جادوگری ہے اور اس زندگی کا اہم ترین اور حسین ترین مظہر انسان اوراسکے مسائل ومعمولات ہیں ۔۔۔۔ پابلو نرودا نے کہا تھا ۔ ’’ یہ انجان گلی کا بلاوا ہے ‘‘۔۔۔۔ شاعر اس انجان گلی میں انجانی بے چینی کے دباؤ میں سر گرداں رہتا ہے کہ یہ ایک بے سمت سفر ہے اپنے آپ کے ساتھ اور اپنے سے ایک با معا نی علیحد گی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اجتماعی شعور کے اظہار کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہء کار کا نام شاعری ہے۔ شاعری جو زندگی اور انسان کو قریب لا تی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور زندگی اور انسان کی رزم وبزم آ را ئی شاعر کے لئے سر خوشی اور نشاط و انبساط کا حیلہ اور وسیلہ بن جا تی ہے۔۔۔۔۔۔شاعرکا رشتہ گو بظا ہر اندھیروں سے ہے مگر وہ اندھیروں میں روشنی اور نور پھیلانے کو اپنا مقصود و منشاء سمجھ تا ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں ان ہی حدودو امکا نات کے اندر رہ کر عبداللہ جاوید کی شاعری کو دیکھنا ، سمجھنا اور پرکھنا ہے ۔
عبداللہؔجاوید کا عمومی موضوع انسان اور خدا، اور ان کے اندر اور باہر جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ذیلی موضوعات ہیں دراصل ان کی شاعری کا محور صو فیا نہ افکار سے ہم رشتہ ہے ۔ان کے صوفیانہ افکاروواردات میں جو والہانہ شیفتگی و بُرشتگی نظر آتی ہے اس میں ان کے ددھیال اور ننھیال کا بڑا حصّہ ہے اور مذہبی روایات کا بھی ۔۔۔۔۔ وہ تصّوف اور طریقت کو انسانیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ خیال کر تے ہیں،اورپا یان کار، یہی راستہ مذہبی،سماجی،عمرانی اور اخلاقی نظا م سے مل جا تا ہے۔اس اخلاقی درس کے دو مخرج ہیں۔۔۔۔۔ ایک بے لوث محبّت اور دوسرا دلِ درد آشنا۔۔۔۔۔ان دونوں کے امتزاج سے وہ زندگی میں نہ صرف تجربات حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی شاعری میں گہرائی اور گرائی پیدا کر تے ہیں ۔انہوں نے شعوری طور پہ جونظامِ فکراپنے ذہن میں قائم کر رکھا ہے اسکی مثا ل خا نقاہوں میں نظامِ عمل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان کا یہی نظامِ فکر اک گوناطہارتِ نفس اور پاکیزگی پیدا کرتا ہے ، جن کے تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’’عالمِ سرِّجاں‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں ۔۔۔اس مقام تک پہونچنے کے لئے قلبِ ما ہیت ضروری ہے ،یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب شاعر اپنے زخم کرید کرید کے دکھا نے کے بجا ئے زمانے بھر کے غم اپنانے کا حوصلہ رکھتا ہو ۔۔۔ یوں تو ولیؔ اور میرؔ بھی اس’عالم سرِّجاں‘ سے گزرے مگر انہیں زیادہ تر مجازؔ سے دلبستگی رہی۔غالبؔنے کچھ سوا ل اٹھائے، تحیّر ،تجسّس اور تشکیک سے گزرسے۔۔۔۔ جدید دور کے شاعروں میں فانیؔ، اصغر ؔ اور جگرؔ بادۂ تصوّف کے ذوق شناس ہیں۔لیکن جن شعرا میں، خاص طور پر عالمِ انوارو اقدار اور عشقِ حقیقی کی زمزمہ سنجیاں ملتی ہیں ان میں مظہر جانِ جاناں ،ؔنیازؔبریلوی،میر عبدالحئی تا باںؔ ، میر دردؔ ، قا ئم چاند پوریؔ، میر اخترؔ،انعام اللہ یقیںؔ سر تا سر رچے ہوئے ہیں۔عبداللہ جاویدؔپر ا ن ہی شعرا کا اثر ہے وہ ان کے سفیر و اسیر دکھا ئی دیتے ہیں۔ یہ بات تو یونہی درمیان میں آگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ جاویدؔ نے اپنی شاعری میں اس منزل تک پہونچنے کے لئے چھپ چھپ کرمژہ مژہ سیلِ خوں بہایا ہے۔اپنے غموں کو انگیز کر کے دوسروں کے غم کو اپنا یا ہے۔۔۔۔۔ان کی زندگی کی راتیں اس کشمکشِ سوزوساز میں گذ ری ہیں۔عبداللہ جاویدؔبھی دنیاوی آسائشوں کے میسّر ہونے کے با وجود اسی عا لمِ کرب سے گزررہے ہیں کہ ان کے لئے ’در غمِ دیگر بسوز ‘ وظیفۂ حیات ہے اس لئے ان کے کلام میں وہ ٹہراؤ ، وہ ضبط و احتیاط ، اور عنا ں گیختگی ہے جو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جو زندگی اور عشق کی تمام صعوبتوں پر انسان عبور پا جا ئے اور عا رفا نہ تیور اور بے نیا زانہ وضو کے ساتھ سب کچھ سہ لینے کے قا بل ہو جا ئے۔ عبداللہ جاویدؔ ہمیں دردؔ کی طرح اسی منزل پر نظر آ تے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ منزل ہے جہاں غمِنشاط اور اضطراب ایک بلیغ سکون میں ڈھلا ہوا نظرآتا ہے۔۔۔۔۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے باہر کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے اور اسی لئے ان کی شاعری میں بھی کما حقّہ وہ سب کچھ سمٹ آیا ہے جو باہر ہے یا خود انکے اندر سمایا ہوا ہے۔۔۔۔ اور اسی لئے وہ محبّت اور عشق کی سرحد پار کرکے جنوں کی منزل کو چھو تے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔ وہ معرفتِ نفس کی اس منزل کو سرَ کرکے ، معرفتِ کائنات او رمعر فتِ الٰہی کو پہونچتے ہیں۔۔۔ان کے ہاں جب جذبے پر تخیّل کی ضرب لگتی ہے تو اس میں ایک طرح کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔یہ روشنی ان کے نز دیک تجلّیِ الٰہی ہے جو انہیں مشاہداتِ آب و گلِ اور کرشمۂ حیات سے ہمکنار کرتی ہے۔یہی نہیں بلکہ اس طرح خودی اور خدا ان کے ہاں ایک ہوتے نظر آ نے لگتے ہیں اور میں نے اس حقیقت کو ’عالمِ سرِّ جاں‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آئیے اب ان سیّال کیفیات سے مملوکچھ اشعار ملاحظہ کر لیں
ہمارا سایہ بھی ایسا نہیں کہ اپنا ہو وہ ساتھ ساتھ بھی رہ کر جدا جدا ہی رہا
یوں دیکھئے تو اس کا نشاں بھی کہیں نہیں محسوس کیجئے تو وہ ہر سُو دکھائی دی
حسنِ گریز پا میں ترا آئینہ تو ہوں لیکن وہ عکس ڈال مجھے تو دکھا ئی دی
کیا ہے عشق تو اب روکنا کیا یہ خنجر تو رگِ جاں پر رکے گا
عشق ہے ظاہر میں خوشبو کا سفر راستہ جاتا ہے انگاروں کے بیچ
ان تمام ممکنات ومضمرات کو میں ’عالمِ سرِّ جاں‘ سے تعبیر کر تا ہوں مگر اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک بہار ایجاد ذہن ’نیرنگیِ جلوۂ تن ‘کی لطافتوں سے بے نیاز ہو جا ئے۔ عبداللہ جاویدؔکے ہاں اس طرح کے اشعار کی تہذیب یافتہ تکرار بھی جلوہ ریز ہے۔ ملا حظہ فرمائیں
زیرِ پیرا ہن بھی وہ رنگیں بدن سر سے پا تک شعلۂ عریاں لگی
کہا بھی ہم نے وہ آدمی ہے خواب نہیں یہ دل غریب مگر خواب دیکھتا ہی رہا
بے ساختہ ہنسنے کی ادا یاد رہے گی ہونٹوں پہ ہنسی، رخ پہ حیا یاد رہے گی
ہر روپ ترا دل پہ مرے نقش رہے گا ہر بات تری مجھ کو سدا یاد رہے گی
اور ’’موجِ صد رنگ ‘‘ کی نظم ’’لب بستگی ‘‘ اور جسم کی آواز تو نیرنگیِ جلوۂ تن سے شرا بور ہیں۔ ’’موجِ صد رنگ ‘‘میں جذ بہ فکرمیں لوَ دے رہا ہے تو ’’ حصارِ امکاں ‘‘ اور اسکے بعد’’خواب سماں‘‘ میں فکر میں جذبے کے رچاؤ کے ساتھ فلکس (FLUX)کی سی کیفیت در آئی ہے یعنی سادگی میں ایک طرح کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ گہرائی اور گرائی پیدا ہوئی ہے اور عبداللہ جاویدؔ اس پر کار سا دگی میں ’آزادہ و خود بین ‘ نظر آتے ہیں یعنی انفرا دیت پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی کیا ضر ورت ہے ، وہ خو د ہی کہتے ہیں :۔
’’ موجِ صد رنگ ‘‘ ہو یا زیرِ نظر کتاب (حصارِ امکاں ) میرا شعری اسلوب بندھا ٹکا ، سانچے میں ڈھلا یا ڈھالنے والا صنعتی ، میکا نکی ، دستکا رانہ ، مشینی ، مرصّع کاری سے سجایا ہوا بڑی حد تک ٹھو س اسلوب نہیں ہے۔ اسکے بر خلاف سیّال ، لچکدار اور صد رنگ ہے۔۔۔۔۔ ’’موجِ صد رنگ ‘‘ اور ( ’’ حصارِ امکاں ‘‘ ) زیرِ نظرکتاب میں جو فرق ہے وہ دو دنیاؤں کا فرق ہے میں ان میں قد رِ مشتر ک کے طور پر موجود ہوں۔ ‘‘
یہ لچکدار اور صد رنگ کیفیت آئندہ بھی قائم رہتی ہے اور یہی انکی انفرادی شان اور امتیازی رنگ اختیار کر لیتی ہے ۔
نہ تھا وہ جس کو دنیا دیکھتی تھی جو تھا وہ سامنے آتا نہیں تھا
جسم کے اندر سفر میں روح تک پہنچے مگر روح کے باہر رہے ، اندر نہیں دیکھا گیا
یا اس نظم میں
صورت کے اندر صورت گر دیکھوں با ہر سب دھوکا کیوں با ہر دیکھوں !
اور اب وہ جا پان کے بین ا لا قوامی شہرت یافتہ فلسفی نیشی دا کتا روNishida Kitaroکے قریب آجا تے ہیں ،جس کا کہنا ہے
"The West has taken Being as the ground reality, and the East has taken nothingness and the relationship of the human individual to either or both of these conceptions "
اس اقتباس کی روشنی میں درجِ ذیل شعر او ر نظم ’’ سب میں ہوں مگر سب نہیں ہوں ‘‘ کے بعد ملا حظہ فر ما ئیں۔
نہ ہو نے پر بھی ہوں، میں ابتدا سے انتہا تک ہوں مرا ہونا کوئی دیکھے، میں بندے سے خدا تک ہوں
سنّا ٹے میں کوئی صدا سی دیتا ہے سنّاٹے میں بھول نہ جانا،میں بھی ہوں
’’ وا ، صورتِ زخم تھا اب نہیں ہوںفریاد تھا ، پہلے اب نہیں ہوں۔۔۔گو ، میرا نفس نفس ہے روشن مانگی ہوئی تاب و تب نہیں ہوں دشمن ہوں ازل سے تیرگی کامیں سنگِ فصیلِ شب نہیں ہوںمثبت ہوںنفی سے صلح کرلوںاتنا بھی تو با ادب نہیں ہوں ‘‘
اور
’’موجود ازل سے ہوں ، ابد تک اے وقت بتا میں کب نہیں ہوں
کثرت میں ہوں وحد تِ مبیّن سب میں ہوں مگرمیں سب نہیں ہوں۔‘‘
(حصارِ امکاں )
میں اس مضمون کے شروع میں کہہ چکا ہوں کہ عبداللہ جاویدؔ کا عمومی موضوع’ انسان اور خدا ‘ سے ہم رشتہ ہے۔۔۔۔ وہ تصوّف اورطریقت کوانسا نیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ تصوّر کرتے ہیں یہی سبب ہے کہ انسان اپنے پورے ، رومانی ، ذہنی ، جذ با تی ، مادّی اور جسما نی وجود کے ساتھ (ان ہی کے الفاظ میں ) گنگناتا ، ہمکتا ، روٹھتا ، اور منتا نظر آ تا ہے۔اسکے علاوہ ان کی شاعری میں کم و بیش وہ سب کچھ بھی ہے جو ان کے عمومی موضوع کے اندر اور با ہر پھیلا ہوا ہے۔۔۔اس پھیلے ہوئے موضوع میں زندگی اور اس کی ناکامیاں اور نا ہموا ریاں بھی ہیں،فطرت کا جلال و جمال بھی ہے ، قدرت کے منا ظر کا حسن ، پھولوں کے رنگ ،آزادی کی تڑپ ، بھور سمے کا جا دو ، اور شام کا طلسم بھی ہے ۔۔۔۔۔وقت کی سوفطا ئی وسعت کا تصوّر بھی ہے اور حیات کی دلکشی اور دکھ کے ساتھ ایک طرح کا گہرا احساس بھی ۔۔۔ زما نے کی شکا یت بھی ہے اور خود آ گہی اور خدا آ گا ہی کا کرب اور اعتماد بھی ہے۔۔۔ ما درِ گیتی کی خوشبو بھی ہے اور نوعِ انسا ن کا درد بھی ہے اور روایات کا لحاظ بھی۔۔۔ اور جدّتِ ادا کی مختلف صو رتیں بھی جلوہ گر ہیں۔۔۔ یعنی عبداللہ جاویدؔ زندگی کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری کم و بیش پوری زندگی کی وسعت پر حا وی ہے۔ان کی غز لوں سے کچھ اشعار اور منظومات سے چند حوالوں کی جھلکیاں ملا حظہ ہوں:۔
ہم خدا کو بھی بسالیں دل کے بیچ شرط یہ ہے وہ ہمیں انساں لگے
اسی نے تیرگیِ شب کی باگ موڑی ہے وہ ایک شعلہ جو تا صبح کانپتا ہی رہا
خامو شیوں میں سرِّ نہاں کھولتا ہوا گونگا ہے لاکھ پھر بھی سراپا زباں ہے وقت
کل کائنات اپنے جلو میں لئے ہوئے جا ویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت
یہ وقت گزر رہا ہے یا میں خود وقت ہوں اور گزررہاہوں
اگلے لوگ تو فصلِ جنوں میں دامن چاک پھرا کرتے تھے
آج جنوں کہتا ہے مجھ سے دامن کا ہر چاک سیوں
ترے کوچے میں تھا یہ بات سچ ہے میں زیرِ سایۂ دیوار کب تھا
جمالِ یار کا جاد و نہیں تو پھر کیا ہے چمن چمن جو فروزاں ہیں رنگ وبو کے چراغ
اور بھی تھے اس کی محفل میں با تیں سب سے ہو تی تھیں سب کی آنکھ بچا کر اس نے ہم کو تنہا دیکھا تھا
چاند گگن میں ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑتے ہیں جس کی لگن میں ڈوب گئے ہم ، دریا میں اک سایہ تھا
وہ روئے سادہ جو دیکھا تو یاد بھی نہ رہا کہ لوگ ہم نے کئی ماہتاب سے دیکھی
۔۔۔۔۔ لہو کی بوندحیات آفریں لہو کی بوندجگر کی آگسلگتے ہوئے جگر کی آگڈھلکتے ا شککسی ماں کی مامتا کے چراغاجڑتے لٹتے ہوئے دلہنوں کے پیار ، سہاگکراہیں بوڑھوں کیبچّوں کی سسکیاں ، آہیںجوان سینوں سے ٹکرا تی گو لیوں کی پکارلہو کے چھینٹوں سے رنگینسرخ سنگینیںبموں کے دہناگلتے ہوئے دھواں اور آگمناؤ جشن تو ان کا بھی کچھ خیال کرویہ مانا خاک سے گلزار ہوگئے پیداکھلے ہیں کو بہ کو غنچےگلی گلی کلیاں بہارآئی ہے، دورِ خزاں تمام ہوا (شہر شہر جشن)
ان کے علا وہ ’’سفر ‘‘ ،’’انتہا ‘‘، ’’ اقوامِ متحدہ‘‘ اور چند دوسری نظمیں بھی توجّہ کی مستحق ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ عبداللہ جاویدؔ کی شاعری باطنی سطح پر اپنے قاری کو منفی روّیوں سے آزاد اور نشا طِ غم کی عر فا نی تہذیب عطا کر تی ہے جو تزکیۂ نفس اور ار تقا ئے ابدیت کی الہا می سطح ہے جہاں لفظ محض لفظ نہیں رہتا گنجینۂ معنی کا طلسم بن جا تا ہے ۔
عبداللہ جاویدؔکی شا عری میں کثرت سے بلکہ تکرار کے ساتھ جبر ، استحصال اور انسانی جذبوں کی بدلتی شکلیں ، طبقاتی ، علاقائی مسائل و مظا لم اور فکرِ حیات کے حوالے سامنے آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان میں ’’پھول نظمیں ‘‘ خصوصی توجِہ کی اس لئے مستحق ہیں کہ ان میں کہانی ، کردار اور کرداروں کا عمل اور ردِّعمل بھی ابھر کے آتا ہے۔ اِن ا انو کھی نظموں سے چند جیتی جاگتی مثالیں ملا حظہ فرما ئیں:۔
پھول حوالہ ہے
تخلیق کی صورت میں
خالق کا اجالا ہے
پھول کو اپنانا
آساں تو ہے پہلے
جاں سے گزر جا نا
پھول سے مت کھیلو
پتّی پتّی ہونے کا
دکھ پہلے جھیلو
پھول کے چوکیدار
رنگ و بو پر پہرے وہرے
سب کے سب بے کار
پھول پہ رکھکر پاؤں
جب واجا نے مونچھ مروڑی (واجا۔ مکرانی سردار )
رویا سارا گاؤں
عبداللہ جا ویدؔ نے طنزیہ لہجے کو اس طرح اپنایا ہے کہ اس میں تلخی اور چراندھ کے دھوئیں کے بجا ئے ایک طرح زندگی آمیز خلش سی کھٹکتی اور چبھتی رہتی ہے اس کارِ ہنر میں وہ اکبر الہٰ آبادی کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ہم تو بندے ہیں ، خدا کا بھی تصوّر جاویدؔ ہرزمانے میں بدل جاتا ہے حالات کے ساتھ
صحرا صحرا، گلشن گلشن ، شبنم کا انجام چڑھتے سورج کی پوجا میں کس کو رہا ہے یاد
کھا پی کرجب راجا رات جگاتا ہے اس کی بھوکی پر جا سو ہی جا تی ہے
’’ قلو پطرہ ‘‘ والی نظم طویل ہے اس لئے نقل سے گریز کر رہا ہوں ۔اس نظم کے لطیف طنزیہ لہجے کو سمجھنے کے لئے نظم کا مطالعہ از بسکہ ضروری ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ ۔۱۴۰ ۔ ۳۶ ۱ ۔ (مو جِ صد رنگ )’’خواب سماں ‘‘ ۔ ’’ میں گراؤنڈ زیرو ‘‘ او ر ’’ خونی ریکھا ‘‘ کا بین ا لسطور طنزیہ لہجہ بھی خا صے کی چیز ہے ۔ ان دونوں نظموں میں طنز کی کاٹ اور تیزی دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔
عبداللہ جاویدؔ اپنے بیٹے اسد جاوید کے پاس شگا گو میں تھے اور میں یہ مضمون لکھ رہا تھا یہ تو میری سمجھ میں آ گیا تھاکہ درویشی و دل ریشی توانہیں ددھیال اور ننھیال کے حوالے سے ورثہ میں ملی ہے ۔ مگر حبِّ اہلِبیت کی روشنی کی کرن کہاں سے آئی ۔با لآخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا۔ بے ساختہ بولے ’’ یہ برقِ تجلّی کی دین ہے جو خانہء دل میں جوں کعبہ روشن ومنوّر ہے۔‘‘ بات سمجھ میں آگئی۔یہی سبب ہے کہ کربلا کا شعری استعا رہ طرح طرح سے ان کی شاعری کی زینت بنا ہے ۔کہیں اس میں معنوی تہہ نشینی ، کہیں رمزو کنا یہ کی اثر آفرینی ہے ۔ کہیں اسکا بر ملا اظہار ہوا ہے۔ کہیں اسنے تا ریخی واقعات کی شکل اختیار کر لی ہے۔آئیے اس کی چند مثالیں بھی ملاحظہ کر لیں :
کربلا میں سر کٹاکر بھی نہیں ٹھہرے حسینؐ تا قیا مت بر سرِ نیزہ سفر جاری رہا
اے مصلحت کی پست زمینوں کے با سیو کتنی بلندیاں ہیں سرِ دار دیکھنا
دستِ ستم کی پیاس لہو سے بجھا گئے دیوا نے ریگِ زار میں گلشن کھلا گئی
رِدائیں پھر سر وں سے کھنچ رہی ہیں زمینِ کربلا چپ چاپ سی ہی
صرف کعبہ پر نہ تھی حجّت تمام بعدِ کعبہ کربلا ، رکھنی ہی تھی