یہ پلکیں بچھا دیں گے
سرکا رؐ کے قدموں میں
گھربار لٹا دیں گے
بے نُور سویرا تھا
آپؐ سے پہلے تو
ہر سمت اندھیرا تھا
اس کے ہی سہارے ہیں
رحمتِ مولا نے
سب کام سنوارے ہیں
صدیق نہیں کرتے
تحقیق بنا ہر گز
تصدیق نہیں کرتے
پنگھٹ سے بھرے پانی
گاؤں بھر میں کہاں
گوری کا کوئی ثانی
پانی سے بھرو گاگر
ہم ڈوب چلے ان میں
دو نین ہیں یا سا گر
دل میں کوئی ہل چل ہے
تو مل یانہ مل
تری یا د تو پل پل ہے
جیب تراشی ہے
اپنی سیاست تو
الزام تراشی ہے
بے ربط تسلسل ہے
زندگی اپنی تو
اک جبر مسلسل ہے
موسم کا گلہ کرتے
بس میں اگر ہوتا
ہر روز ملا کرتے
اظہار تو کر دیکھو
پیا ر ہے کیا جاناں
اک با ر تو کر دیکھو
بھوک ہے ،فاقے ہیں
ظلم کی حد دیکھو
گلیوں میں دھماکے ہیں
تحریر مٹا دوں گا
ظلم کا ہر پتھر
ٹھوکر سے ہٹادوں گا
تقریر پہ مرتے ہیں
عقل کے سب اندھے
تصویر پہ مرتے ہیں
یاروں کا گلہ کرنا
ان کی عادت ہے
دشمن سے ملا کرنا
تقلید نہیں کرنی
بے بنیاد کبھی
تنقید نہیں کرنی
مٹی کا ڈھیلا ہے
طالب تو ہیں بہت
پرچاند اکیلا ہے
حالات سے ڈرتے ہیں
بم دھماکوں میں
معصوم ہی مرتے ہیں