مبشر سعید
تہذیب سِکھا جاتے
لوگ پیمبر سے
انسان بنا جاتے
٭
پوشاک تو اُونی تھی
شوخ دسمبر کی
ہر شام بھی سُونی تھی
٭
گُمنام ستارا ہوں
عشق محبت کی
ہر جنگ مِیں ہارا ہوں
٭
اب جسم پہ آنچل کر
د یکھ ، ز مانے کو
مت جان کے پاگل کر
٭
آنکھوں مِیں اُدا سی ہے
یا ر نہیں کوئی
ہر شخص سیاسی ہے
٭
خو شبو کا بدل لکھّوں
چاند سی لڑکی پر
ہر رات غزل لکھّوں
٭
رانجھوں کا نہ ہیروں کا
شہرِملتان مِرا
تو شہر ہے پِیروں کا
٭
دنیا کو جلا تی ہو
ہاتھوں پہ اب بھی
کیا مہندی لگاتی ہو
٭
کُچھ پھول ہیں کلیاں ہیں
اب تک یادوں میں
مُجھ دیس کی گلیاں ہیں
٭
ادراک کے درپن مِیں
خوب رُلاتے ہیں
جو خواب ہیں اکھین مِیں
٭
کم ظرف سا لگتا ہے
فوج کی وردی کو
جو کھال سمجھتا ہے
٭
ہر دُکھ کو اب سہنا
لوٹ کے آؤں گا
مت رو میری بہنا
٭
یہ سانس تو فرضی ہے
تُم بن میری جاں
جینا خود غر ضی ہے
٭
تُجھ نام لگا نی ہے
ویسے بھی دلبر
یہ جان تو جانی ہے
٭
دل جان جگر ما ہیا
ساتھ چلودلبر
مشکل ہے سفر ماہیا
٭
پیتل کا کٹورا ہے
یار نے میرا دل
خود جان کے توڑا ہے
٭
یہ عشق چنیدہ ہے
دل کا حسیں دامن
برسوں سے دریدہ ہے
٭
دریا کے کنارے تھے
دور رہے خود سے
ہم ہجر کے مارے تھے