نذیر فتح پوری
ممتا بھری لوری کی
یاد ستاتی ہے
پھر دودھ کٹوری کی
موسم ہے جل تھل کا
سوکھی زمینوں پر
رتھ اترا ہے بادل کا
کس کس کو جگاتی ہے
رات کی نوٹنکی
کیا کھیل دکھاتی ہے
لٹ جانے کا ڈر بھی ہے
دور ہے منزل بھی
صحرا کا سفر بھی ہے
کیا درد کے منظر ہیں
پانی کی بوندیں
پیاسوں کا مقدر ہیں
یہ بھی تو مقدر ہے
جانا ہے جس جانب
بے آب سمندر ہے
یہ شہرِ محبت ہے
آگے قدم مت رکھ
جب دل میں کدورت ہے
رنجیت ہیں یہ کیسے
تیر چلاتے ہیں
ترکش بھی نہیں رکھتے
ماتھے پہ نہیں بندیاں
گاؤں کی گوری سے
کیا روٹھ گئے سیّاں
سوغات ہے سپنوں کی
نیند کے آنگن میں
بارات ہے سپنوں کی
شمشیر بکف آیا
کیسا مسیحا ہے
مرہم نہ دوا لایا
ہم یوں بھی نبھا لیں گے
ایک کلی سے ہی
گلزار بنا لیں گے
کہنے کو پرانی ہے
عمرِ گزشتہ کی
ہر یاد سہانی ہے
جو بام سے اتری ہے
درد کے آنگن میں
وہ دھوپ کنواری ہے
یہ کار نہیں کرتے
دل کی عمارت کو
مسمار نہیں کرتے
احساس جگاتے ہیں
شعر ہوں سچے تو
مرتوں کو جِلاتے ہیں
کیا خوب جیالا ہے
کوئی بھی موسم ہو
سر نیزے پہ رکھتا ہے
کیا کس سے کہا جائے
دل کا تقاضہ ہے
خاموش رہا جائے