نصرت ظہیر(دہلی)
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
محترم قارئین، جب سے یہ کالم (نمی دانم)خادم کی تصویر کے ساتھ شائع ہونے لگا ہے تبھی سے کچھ عجیب سی باتیں ذہن میں آنے لگی ہیں،اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ یا تو یہ سلسلہ یہیں روک دیا جائے یا پھر تصویر پر نظرِ ثانی کرکے کوئی اور صورت اختیار کرلینی چاہئے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ راقم کے نام میں جو ذرا سی تانیثیت ہے اس کی بنا پردل پھینک حضرات کی ایک معتد بہ اکثریت عرصہ دراز سے طرح طرح کی رومانی خوش فہمیوں میں مبتلارہتی چلی آرہی ہے۔اور ہر چند کہ اس بارے میں کئی مضمون بھی مکمل وضاحت کے ساتھ لکھے ، کئی کتابوں میں اپنی نمایاں تصاویر شائع کیں (بلکہ سچ پوچھئے تو کتابیں چھاپی ہی اس مقصد سے گئیں کہ لائق مصنف کے لئے اپنی تصویر چھاپنے کاجواز پیدا ہو جائے، ورنہ اگر صرف تصویر چھاپی جاتی اور ساتھ میں مصنف کی تصنیف نہ ہوتی توصرف مصنف دیکھ کر قارئین کو کتنا عجیب اورawkwordلگتا،بالخصوص مرد قارئین کو!) لیکن خوش فہموں کی غلط فہمیوں میں کمی نہ آئی۔یا یوں کہئے کہ صاحبانِ خوش فہم کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ شائد ایسااس لئے ہوا کہ ایک وضاحتی مضمون پڑھنے کے بعد جو حضرات نالائق مصنف کو پڑھنے سے تائب ہو جاتے ان کی جگہ نئے قارئین لے لیتے اور اگلا وضاحتی مضمون پڑھنے تک ڈٹے رہتے۔
خوش فہم قارئین کی مقدار کا یہquotientابھی تک قائم ہے اس کا اندازہ کمترین کو حال ہی میں تب ہوا جب اس کالم کے ساتھکالم نگار کے ای میل آئی ڈی چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ امید تھی کہ تعریف بھرے خطوط اب عام ڈاک کی بجائے انٹر نیٹ کے ذریعے موصول ہونے لگیں گے۔ لیکن پہلے ہی روز ایک صاحب کی طرف سے جوپہلا ای میل کالم کی تعریف میں ملا اس کا پہلا جملہ پڑھتے ہی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ ان صاحب نے اپنے انگریزی مکتوب کی ابتدائی سطر میں تحریر کیا تھا:
I am confused.Are you male or female?Or just an email.
خوش قسمتی سے اس مقفیٰ و مسجع انگریزی جملے کا با محاورہ اردو زبان میں صحیح ترجمہ کرناتقریباً نا ممکن ہے تاہم میل male(نر)اورفی میل female(مادہ) کا قافیہ ای میل سے بھڑا کر جو توہین آمیز اشارہ اُن حضرت نے کیاتھااسے سمجھنا اپنے آپ میں اس قدر آسان تھا کہ آج کل کے اردو پروفیسربھی اسے ترجمے کے بغیربخوبی سمجھ جائیں گے۔ بعد میں اگرچہ مکتوب نگار نے کالم نگاری کی تعریف بھی کی تھی لیکن پہلی سطر میں کئے گئے اشارے کی نوعیت اتنی سنگین تھی کہ مارے غصے کے خون خشک ہو گیااورآنکھوں میں ترمرے سے اڑنے لگے ۔ جی چاہا کہ کپڑے پھاڑ کر شہر سے نکل جاؤں اور جنگل کی راہ پکڑلوں ۔ نیز باقی کی زندگی حق ہو‘ حق ہو‘کرتے ہوئے یادِ خدا میں بسر کر دوں اور پندرہ بیس برس بعدجب کسی پہونچے ہوئے بزرگ سفید ریش کی صورت اختیار کرچکوں توبھٹکے ہوئے راہگیروں کو پکڑ پکڑ کراور اپنی ریشِ مبارک دکھا دکھاکربزبانِ غالب ترنم سے قوّالی سنایا کروں کہ مجھ کوسنو جوگوشِ حقیقت نیوش ہو ، اورمیاں دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو !
ایک دن خود ہی اپنے اس تصور پر حال آیا چاہتا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور دفتر کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اپنی کوئی اچھی سی تصویر بھیج دیجئے تاکہ اسے کالم کے ساتھ چھاپا جاسکے۔ارشاد کیا تھا گویا اندھی سرنگ میں روشنی کا اشارہ تھا جس سے دل و دماغ روشن ہو گئے۔ مطلب صاف تھا کہ اب ہر ہفتے تصویر چھپے گی جس سے ہر ہفتہ خادم کے حق میں خوش فہمیوں کے ازالے کا ہفتہ بن جائے گااور عشاق کی تعدادانشا اﷲ دوہفتوں میں نہیں تو تین ہفتوں میں ضروردرجۂ صفر کو پہونچ جائے گی۔
مسئلہ صرف یہ تھا کہ دفتر والوں نے کوئی اچھی سی تصویر مانگی تھی اور ناچیز کے پاس کوئی تصویر ایسی نہیں تھی جسے اصل صورت سے بہتر کہا جاسکے۔ کئی فوٹو گرافروں کا خیال ہے کہ راقم کو قدرت نے ایک ایسی صورت عطا کی ہے جس کے اصلی حسن کو دنیا کے کسی کیمرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ایک صاحب نے اپنا ردِ عمل کئی تصویریں الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ بھائی صاحب یہ آپ نے ہر تصویر میں نیگیٹو کیوں پرنٹ کرالیا ہے ؟میاں عبدالقدوس نے تو یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ تم صرف لائیوliveہی اچھے لگتے ہو۔اس جملے کا مطلب دریافت کرنے پر فرمایاکہ تمہاری شکل صرف براہ راست نشر کرنے کے لائق ہے کہ اس پر کسی کا زور نہیں چلتا اور چارو ناچار دیکھنا ہی پڑتا ہے۔اب یہ بتانا یہاں غیر ضروری ہے کہ اس مکالمے کے بعد کتنے عرصے تک ہمارے باہمی مذاکرات موقوف رہے۔
خیر، کسی طرح ایک ایسی تصویر ڈھونڈ ہی لی جوکم از کم پہلی نظر میں ضرورپازیٹو لگتی تھی۔ کالم کے ساتھ چھپنے پر ناقص طباعت نے تصویرکے حسن میں مزید اضافہ اس طرح کر دیا کہ اس کے بیش تر عیب واضح نہیں ہو پائے۔ اس صورتِ حال سے کچھ امید بندھی کہ نہ صرف مذکر قارئین کے علم میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ ہو سکتا ہے مونث حلقوں کی نظر بھی پڑنے لگے اور کیا پتہ کسی دن عطر میں بسے وہ محبت نامے بھی موصول ہونے لگیں جن میں احقر کومحترم اور جناب کہہ کر مخاطب کیا گیا ہو۔
مگر تین ہفتے بعد جب ایک دن میاں عبدالقدوس سے ملاقات ہوئی توساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئیں۔حضرت کے چہرے پر بے زاری کی لکیریں صاف نظر آرہی تھیں۔ سبب پوچھا تو مزید بے زاری سے فرمایا:
’’یار اب تمہاری تحریرمیں وہ بات نہیں رہی۔دوسرے جملے سے ہی جماہیاں آنے لگتی ہیں۔ ‘‘
’’کیا مطلب!؟‘‘میں نے گھبرا کر پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ پہلے تمہاری فضولیات بھی بھلی لگتی تھیں۔ لفظوں کے چناؤ میں ایک سلیقہ نظر آتا تھا۔مضمون کی ہر سطرموضوعِ سخن کے ساتھ انصاف کرتی محسوس ہوتی تھی۔ جملوں میں جمالیاتی حسن، لہجے میں ترنم، بیان میں غنائیت ․․․یہ تمام تاثرات تمہارے نام کی نسائیت سے اور فزوں ہو جاتے تھے۔لیکن اب تصویر پر نظر پڑتے ہی بھک سے اُڑ جاتے ہیں۔اب تمہاری وہی تحریریں پڑھنے والے یا والی کے دل و دماغ پر وہی اثر ڈالتی ہیں جو جے این یو یا دہلی یونی ورسٹی کے کسی اردوپروفیسر کی تنقیدی کتاب میں پایاجاتا ہے۔ قاری خواہ کیسی بھی بے خوابی کامریض ہوایسی کتابوں کا پہلا صفحہ پڑھتے ہی اس کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں اور دوسرے صفحے سے تو باقاعدہ خرّاٹے شروع ہو جاتے ہیں۔اردو کا کوئی بک ڈپو ایسا نہیں جہاں تمہیں ان پروفیسروں کی کتابیں دھول چاٹتی نہ مل جائیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی کتابوں کو بک ڈپو کی بجائے میڈیکل اسٹور پر کیوں نہیں بیچا جاتا۔سچ کہتا ہوں ۔اگراردو کی تنقیدی کتابیں دواخانوں پر دستیاب ہونے لگیں تو نیند کی گولیاں بنانے والی کئی کمپنیوں کا دھندا چوپٹ ہو جائے۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ تمہا را کالم بھی اسی صنف میں داخل ہونے والا ہے․․․‘‘
’’اور یہ صرف اس لئے کہ میری تصویر اس کے ساتھ چھپنے لگی ہے؟‘‘ میں نے غصّے سے کانپتے ہوئے فرمایا۔
’’برا نہ مانو یار! میرا مقصد تمہاری توہین کرنا نہیں ہے۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نام سے تم برائے نام ہی سہی کچھ تو حسین لگتے ہو!‘‘
اس کے بعد یہ خاں صاحب کی خوش قسمتی ہی تھی کہ مجھے آس پاس کو ئی اینٹ یا پتھر کا ٹکڑا پڑا ہوا نہیں ملا۔
ارشدخالد اور ناصر نظامی کے اشتراک سے شائع ہونے والا ادبی کتابی سلسلہ
عکاس انٹرنیشنل۔اسلام آباد،ایمسٹر ڈیم
اہم اور دستاویزی نوعیت کاشمارہ نمبر ۹شائع ہو گیا ہے
اس کتابی سلسلہ کے حصول کے لیے رابطہ کیجیے
House No 116 4Street No 2Block C ,National Police Foundation,
Sector O- 9,Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan
E- Mail: [email protected]
Nizamia Art Acedemy Amsterdam
NeiuwenDijk-2 3(101 2LZ), Amsterdam,Holland