حیدر قریشی
(ماموں ناصر)
ہراسکتانہ تھا ویسے تو کوئی بھی مگر مجھ کو
کسی کی کامیابی کے لئے ناکام ہونا تھا
۔۔۔۔میرے والد سرائیکی تھے سو میں نسلاً سرائیکی ہوں۔ میری والدہ پنجابی تھیں اس لحاظ سے سرائیکی النسل ہونے کے باوجود میری مادری زبان پنجابی ہے۔ پنجابی زبان میں ماں کا نام دوبارلینے سے ماموں کارشتہ بنتاہے یعنی ’’ماں ماں‘‘(لکھنے میں تو شاید ماماں سے ہی کام چل جاتاہے لیکن الفاظ کی ادائیگی میں ماں ماں کہنا ہوتاہے) سو ماموں کا رشتہ بڑا اہم اور معتبر رشتہ ہے۔ میرے پانچ ماموں ہیں۔ عمروں کے لحاظ سے ان کی ترتیب یوں ہے: پہلا نمبرعطاء اللہ کلیم صاحب۔ دوسرا نمبر پروفیسر ناصر احمد صاحب۔ تیسرا نمبر حمید اللہ کوثر باجوہ صاحب۔ چوتھا نمبر ڈاکٹر سمیع اللہ ریاض صاحب۔ پانچواں نمبر حبیب اللہ صادق صاحب۔ اگر مجھ سے میری ذاتی پسند کے بارے میں پوچھاجائے تو پھر میرے ماموؤں کی ترتیب یوں ہوگی: پہلا نمبر ماموں ناصر۔ دوسرا نمبر ماموں ناصر۔ تیسرا نمبر ماموں ناصر۔ چوتھانمبرماموں سمیع اور پانچواں نمبر ماموں صادق۔
۔ ۔یہ قطعاً میری ذاتی پسندکی ترتیب ہے جس سے اختلاف کا ہر عزیز کو حق حاصل ہے۔ اس ترتیب سے یہ ظاہرہورہاہے کہ ماموں ناصر میرے لئے ایسے ماموں ہیں جو ماں کا نام دوبار لینے سے نہیں بلکہ چھ بار لینے سے پورے ہوتے ہیں اس سے میرے لئے ان کی محبت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ لیکن ماموں ناصر کی محبت بڑی ظالم شے ہے اس کی وضاحت ذراآگے چل کرہوگی۔
۔۔۔۔ماموں ناصر کے ساتھ میری محبت دراصل ’’بچپن کی محبت‘‘ ہے میں نے ابتدائی عمر میں ہی دیکھاکہ ماموں ناصر کو اپنی بہنوں میں میری امی جی سے خاص محبت تھی۔ اتنی خاص کہ دوسری بہنوں کے لئے بھی بعض اوقات غصے کا موجب بن جاتی۔ بے جی(نانی جان) بھی کبھی کبھی جھلاجاتیں۔ امی جی کے تعلق سے یہ محبت اباجی تک بھی پہنچی ماموں ناصر اباجی کا بے حد احترام کرتے۔ رحیم یارخان میں تنگی کے دنوں میں جب بھی ماموں ناصر سے قرض مانگا انہوں نے فوراً فراہم کیا، چاہے خود بھی کہیں سے قرض ہی کیوں نہ لیاہو لیکن اباجی کے کام میں تاخیر نہیں ہونے دی۔ ۔ ایک موقعہ پر بہت سارے عزیز و اقارب جمع تھے۔ اباجی اپنے جوتوں کی مرمت اور پالش کرانے کے لئے کسی بچے کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جب تک کوئی بچہ ملتا ماموں ناصر بتائے بنا خود اباجی کے جوتے لے کر چلے گئے اور مرمت کراکے، پالش کراکے لے آئے۔۔ امی جی اور اباجی کے ساتھ ماموں ناصر کے ایسے محبتی رویّے کی متعدد مثالیں ہیں۔ اسی وجہ سے بچپن میں ہی مجھے ماموں ناصر سے محبت ہوگئی۔مبارکہ کے ساتھ میری شادی ہونے میں میری پسند کے علاوہ امی جی اور ماموں ناصر کی گہری محبت کا جذبہ بھی کارفرماتھا۔
۔۔۔۔ماموں ناصر بنیادی طورپر سیلف میڈ انسان ہیں کم عمری میں میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہی انہوں نے سارے خاندان کا بوجھ اٹھانے کے لئے نوکری کرلی۔ نوکری کے ساتھ پرائیویٹ طورپر تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ ریلوے کی ملازمت سے لے کر انگلش کی پروفیسری تک انہوں نے ان تھک محنت کی۔ خاندان کے تقریباً ہر فرد پر احسانات کئے اور تقریباً ہر فرد سے ان احسانات کی مناسب سزا پائی ۔ ماموں ناصر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنوں میں سے جو انہیں زیادہ عزیز ہوتے ہیں ان کی سفارش پر دوسروں کے مشکل سے مشکل کام کروادیتے ہیں مگر خود اس عزیز کا کام کبھی نہیں کرائیں گے جس سے انہیں محبت ہوگی۔ اس لئے میں نے کہا تھاکہ ماموں ناصر کی محبت بڑی ظالم شے ہے اور اس محبت کے بڑے شکاروں میں سے ایک میں ہوں۔
۔۔۔۔ماموں جی کی پہلی شادی ماں کی اطاعت میں ہوئی اس خاندانی فیصلے کی قیمت ممانی مجیدہ نے اداکی۔ سرخ و سفید رنگت والی ممانی مجیدہ سے لے کر ٹی بی کا شکار ممانی مجیدہ تک دکھوں کاایک سفر تھا۔ ممانی مجیدہ نے ۳۲برس کی عمر میں یہ سفر طے کرلیااور اپنی یادگار ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑگئیں۔
۔۔۔۔میری شادی اپریل ۱۹۷۱ء میں ہوئی اسی سال میں اور مبارکہ گرمیوں کے دنوں میں ماموں ناصر کے پاس مانسہرہ گئے۔ وہاں ایک دن ریڈیو پر مہندرکپور کا گیت نشر ہوا:
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو میں یونہی مست نغمے لٹاتارہوں
۔۔۔۔ میں نے دیکھا ماموں ناصر عالم جذب میں پہنچے ہوئے تھے۔ ممانی مجیدہ کو فوت ہوئے چار برس ہوچکے تھے اور ان کی زندگی کے آخری تین برس بھی سنگین بیماری کے باعث شجر ممنوعہ کے طورپر بسر ہوئے تھے۔ گویا سات برس کا وقفہ تھا۔ بیٹیوں کی شادی کے بعد جیسے ہی انہیں سبکساری کا احساس ہوا زندگی پھر سے انگڑائیاں لینے لگی۔ مہندرکپور گارہاتھا:
میں اکیلا بہت دیر چلتا رہا اب سفر زندگانی کا کٹتا نہیں
جب تلک کوئی رنگیں سہارا نہ ہو وقت کافر جوانی کا کٹتا نہیں
۔۔۔۔میں نے اس دن مہندرکپور کے گیت کالفظ لفظ ماموں ناصر کے روم روم میں اترتے دیکھا۔
خانپور واپس آکر امی جی کو اپنے ’’مشاہدہ‘‘ کا حال سنایا۔ امی جی نے فوراً رشتوں کی تلاش شروع کردی۔ دوسال کی دوڑدھوپ کے بعد مطلوبہ رشتہ ملا۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔۔ ممانی آصفہ کو ملتان سے بیاہ کر خانپور لایاگیا۔ دوچار دن شادی کی گہماگہمی رہی پھر ماموں، ممانی پشاور چلے گئے۔ گھر آبادہوگیا۔
۔۔۔۔ماموں ناصرانگریزی ادبیات کے استاد ہیں مگر اُردو ادب سے بے خبر نہیں ہیں اردو کے کلاسیکی ادب سے تو گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ برجستہ اشعار پڑھنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ مرحومہ ممانی مجیدہ نے کہا کہ مجھے تھوڑا سا دبادیں۔ فوراً غالب کایہ شعر پڑھنے لگے:
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے، ذرا میرے پاؤں داب تو دے
۔۔۔۔ہزارہ میں ڈاڈرکے علاقے سے دریائے سرّن گزرتاہے۔ دریاکا صاف پانی اور چاروں طرف ہریالی۔۔ میں اس منظر کو حیرت اور مسرت سے دیکھ رہاتھاکہ ماموں ناصر نے معمولی سے تصرف کے ساتھ علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھنا شروع کردیئے:
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہیں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہے
ہے دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہے
پانی کو چھو رہی ہے جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہے
۔۔۔۔دل کی ایسی جادوئی حالت تھی جیسے علامہ اقبال کے اشعار الہام کی طرح نازل ہورہے ہوں یہ ماموں ناصر کی برجستگی کاکمال بھی تھا۔
۔۔۔۔گھر کی شادی بیاہ کی محفلوں میں جب صرف خاندان کے افراد موجود ہوتے ماموں ناصر کوئی نہ کوئی غزل اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ سناتے۔ بہادرشاہ ظفر کی غزل ’’تادر جاناں ہمیں اول تو جاناہے منع‘‘ اور سراج دکنی کی غزل’’خبر تحیّرعشق سن نہ جنوں رہانہ پری رہی‘‘۔۔ ماموں ناصر ایسی خوبصورتی سے سناتے کہ یہ اصل شاعروں کی بجائے ماموں ناصر کا کلام لگنے لگا۔
۔۔۔۔طبعاً ماموں ناصر مذہبی انسان ہیں مگر مذہبی تعصّبات سے دور۔۔ حالانکہ میرے عزیزوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے کٹٹرپن کے باعث اپنے تعصّبات سے پاک نہیں ہوسکے۔ یورپ اور امریکہ کا کشادہ ماحول بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑسکا۔۔ مذہبی ہونے کے باوجود ماموں ناصر خلاف شرع تھوک لینے کو عیب نہیں سمجھتے اسی لئے اندھیرا، اجالا ان کا مسئلہ نہیں ہے۔۔ ماموں ناصر کی خوش ذوقی اور شگفتہ مزاجی کے باعث مجھے ہمیشہ ٹوہ رہی کہ ماموں ناصر کی کسی پرانی محبت کو دریافت کروں اس میں کوئی واضح کامیابی تو نہیں ہوئی لیکن اتنا سراضرور ہاتھ آیاہے کہ کسی زمانے میں ماموں ناصر کی فیصل آباد کے ایک میرصاحب سے بہت دوستی تھی۔ ان کی بیگم، بہن، بچے۔۔ گھر کے سب افراد ماموں ناصر کے لئے چشم براہ رہتے۔ انہیں دیکھ کر ماموں ناصر کے چہرے پر بھی شگفتگی پھیل جاتی۔ بعد میں یکایک یہ تعلق ٹوٹ گیا۔ میرا اندازہ ہے کہ ماموں ناصرکی موجودہ شگفتہ مزاجی اسی دور کی عطاہے۔ واللہ ا علم باا لصواب!
۔۔۔۔مجھے شاعری کا شوق ہواتو ماموں ناصر نے میری اصلاح کے لئے ایک استاد قسم کے شاعرجناب اختر بے خودرام پوری(یا کوئی اور پوری) کوبلالیا۔ انہوں نے میری وہ اصلاح فرمائی کہ شاعری سے تائب ہونے میں بس تھوڑی سی کسر رہ گئی۔ عام زندگی میں مجھے راہ راست پر لانے کے لئے ماموں ناصر کسی نہ کسی جناب اختر بے خودرام پوری کو مجھ پر مسلّط کردیتے ہیں۔ شاید انہیں میری اصلاح کا گرمعلوم ہوگیاہے۔
۔۔۔۔ہرانسان کی زندگی عام معمولات کے مطابق بسر ہوتی ہے لیکن ایک ڈگر پر چلتے چلتے اس میں کبھی کبھار کوئی موڑ بھی آجاتاہے۔ کوئی پراسرار، محیر العقول یاروحانی تجربہ یا پھرکوئی ایسا واقعہ، سانحہ ہوجاتاہے جس سے زندگی عام ڈگر سے ہٹ جاتی ہے۔ ماموں ناصر کی زندگی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے۔ قیام پاکستان کے ایّام میں مشرقی پنجاب میں بم کے ایک دھماکے کے نتیجہ میں ماموں ناصر زخمی ہوگئے۔ موت انہیں چھوکر گزرگئی۔بم کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی ضرب کا نشان ماموں ناصر کے جسم پر آج بھی موجود ہے۔ اس تجربے سے انہیں زندگی کی اہمیت اور موت کی حقیقت دونوں کا ادراک ہوا۔
۔۔۔۔ریلوے ملازمت کے دوران ماموں ناصر غالباً کوہاٹ میں مقیم تھے۔ وہاں ایک دفعہ موسم بہار میں ایک سانپ نکل آیا۔ ریلوے کے ایک دو ملازموں نے مل کر سانپ کو ہلاک کردیا۔ ماموں ناصر کا قصور صرف اتناتھاکہ وہ بھی جائے واردات پر تماشائی کی حیثیت سے موجود تھے۔ فلمی کہانیوں کے عین مطابق مردہ سانپ کی آنکھوں میں ماموں ناصر کاعکس بھی محفوظ ہوگیا۔ پھر اس سانپ کی مادہ کے انتقام کی سٹوری شروع ہوگئی ماموں ناصر سے اس ناگن نے عجیب انتقام لیا۔ ہرسال بہار کے موسم میں آتی اور ان کے پیروں کو سونگھ کر چلی جاتی۔ اگلی صبح پاؤں اس طرح ہوتے جیسے کسی نے ساری کھال اتارلی ہو۔ ماموں ناصر اس دوران ریلوے کی ملازمت چھوڑکر محکمہ تعلیم میں آگئے مگر محکمے کی تبدیلی کابھی اس ناگن نے کوئی اثر نہیں لیا۔ ماموں اس موسم میں پشاور میں ہوتے یا کوہاٹ میں، میران شاہ میں ہوتے یا ڈیرہ اسماعیل خاں میں۔۔ اپنے پیار کی آگ میں جلتی اور انتقام کی آگ میں سلگتی، غلط فہمی کی ماری وہ ناگن وہیں پہنچ جاتی، ان کے پاؤں سونگھتی اور انہیں اذیت میں مبتلا کرکے لوٹ جاتی۔ آفرین ہے اس ناگن کی اخلاقیات پرکہ اس نے ماموں کے پاؤں سونگھنے سے کبھی تجاوز نہیں کیایہ الگ بات کہ اسی حرکت سے ہی ماموں کے پیروں کا ماس الگ ہوجاتاتھا۔ شاید وہ ان کے ماس ہی کو ان کے جسم سے الگ کرنا چاہتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خاں میں قیام کے دوران جب وہ ناگن اپنے مُقررّہ وقت پر پہنچی تو اتفاق سے ماموں صادق اور چند سٹوڈنٹس بھی وہیں موجودتھے۔ ماموں ناصر تو اس ناگن کو دیکھتے ہی سحرزدہ سے ہوگئے مگر ان کے شاگردوں اور ماموں صادق نے مل کر اس ناگن کاکام تمام کردیا۔یوں’’ناگن کا انتقام‘‘ کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی لیکن یہ کہانی کسی فلم کی سٹوری یاکسی قدیم مائتھالوجی سے اخذ کی ہوئی نہیں تھی۔ماموں ناصر نے فلمی ہیرو کے برعکس زندگی کے ہیرو کی طرح اپناپارٹ پلے کیا۔ فلمی ہیروکی طرح مصنوعی کرب خود پر طاری نہیں کیا بلکہ واقعہ کی پوری اذیّت بھوگی اور سالہاسال موت سے معانقہ کرکے نیا جنم لیتے رہے۔۔ بم دھماکے اور غلط فہمی کی شکار منتقم مزاج ناگن کے واقعات کے بعد تیسرا اہم واقعہ ماموں ناصر کی ممانی آصفہ کے ساتھ شادی کاہوا۔ یہ شادی ان کی زندگی کی ڈگر کو یکسر تبدیل کرگئی۔ ممانی آصفہ کے ذریعہ ہمارے ننھال میں زندگی کا ایسا طریقہ سامنے آیا جس کی پہلے ہمارے ننھال میں کوئی مثال موجود نہ تھی۔ممانی آصفہ کے پاس بیٹھے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے’’ شیداپستول‘‘ جینٹری میں آگیاہو۔ بلکہ کبھی کبھی تو ماموں ناصر کی حالت بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دینے لگتی ہے۔
۔۔۔۔مرحومہ ممانی مجیدہ سے ماموں ناصر کے چاربچے ہیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔۔ مُبارکہ، وحیدہ، غزالہ٭ ، مُبشّراحمد خالد۔۔ ممانی آصفہ سے دوبیٹیاں ہیں۔۔ عائشہ، بُشریٰ۔۔ ممانی مجیدہ کی ساری اولاد شادی شدہ ہے بڑی بیٹی مبارکہ میری بیوی ہے۔ اس سے چھوٹی وحیدہ کے شوہر بشیر احمدشاہد عمر میں مجھ سے چھ ماہ بڑے ہیں اور سب سے چھوٹی غزالہ کے شوہر محمود عمر میں مجھ سے دوسال بڑے ہیں۔ یوں میں رشتہ کے لحاظ سے اس طرح ماموں ناصر کاسب سے بڑا داماد ہوں کہ ان کی بڑی بیٹی کاشوہر ہوں اور اس لحاظ سے اب تک کا سب سے چھوٹا داماد ہو ں کہ دونوں چھوٹے داماد عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔۔۔ایں سعادت بزور بازونیست
۔۔۔۔میرے بعض بھائیو ں کو ایک دوماموؤں سے شدید شکایتیں ہیں۔ ایک دفعہ میں انہیں سمجھارہاتھاکہ ہر شخص کے اپنے حالات ہوتے ہیں، اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، ترجیحات ہوتی ہیں۔ اب ہمیں کسی ماموں کاشکوہ کرنے کی بجائے یہ دیکھناچاہیے کہ ہم اپنے بھانجوں بھانجیوں کے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔ تاکہ ہمیں بھی کل کلاں ان سے ویسے ہی ریمارکس نہ سننا پڑیں جیسے آج بعض ماموؤں کے بارے میں ہم دے رہے ہیں۔شکوے شکایتیں تورشتہ داری کا حصہ ہیں۔ ایک حد تک رہیں تو ان سے بھی محبت گہری ہوتی ہے۔ ویسے بحیثیت رشتہ ماموں کارشتہ ماموں کاہی ہوتاہے۔ ہمارے بھانجوں کاماموں ہو یا ہمارا ماموں، ہیرکاماموں ہویارانجھے کا ماموں۔۔ بہن کو بھائی سے اور بھائی کو بہن سے سچی محبت ہوتو سارے ’’مامے‘‘ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ماموں ناصر میرے لئے ’’رانجھے کاماموں‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ رانجھے کا ماموں باقی دنیا کے ماموؤں جیسا ہوتے ہوئے بھی ان سے تھوڑا مختلف ہے۔ رانجھے کا ماموں اسے خودبانسری لے کردیتاہے۔ بھینسیں پلے سے خرید کردیتاہے۔ رومینٹک فضاپیدا کرنے میں ہر ممکن مدد کرتاہے۔ کھیڑوں سے مقابلہ کرتاہے اور پھر رانجھے کی ساری مشقتیں خود اٹھاکراسے ہیرعطاکراتاہے۔ مجھے یقین ہے اگر ماموں ناصر پہلے رانجھے کے دور میں اس کے ماموں ہوتے تو ہیر سے اس کی شادی کراکے رہتے۔ دراصل ماموں ناصر طبعاً مذہبی ہونے کے باوجود صلح جو، انسان دوست اور محبتی انسان ہیں۔
۔۔۔۔ عالمی امن کے لئے موجودہ دور کے بڑے ممالک جس طرح ’’ہیرکے مامے‘‘ بن کر دہائی دے رہے ہیں اگر رانجھے کے ماموں کو موقعہ دیں تو بہت سے جھگڑے فوراً ختم ہوسکتے ہیں، مثلاً اگر افغان مسئلہ پر مفاہمت کے لئے ماموں ناصر کو ذمہ داری سونپی جائے تو ماموں، جنرل نجیب سے یوں بات کریں گے: افغان عبوری حکومت کے تمام ارکان ذاتی طورپر آپ سے دلی محبت رکھتے ہیں مگر بین الاقوامی مداخلت کے باعث مجبور ہیں۔۔ پھر افغان عبوری حکومت سے یوں بات کریں گے: جنرل نجیب تو آپ سب کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے مگر روسی دباؤ کے باعث ان کی پیش نہیں جارہی۔ اس لئے آپ اپنے رویے میں تھوڑی لچک پیدا کرکے ان کی مدد کریں۔۔ یوں چند ملاقاتوں کے بعد افغان مجاہدین اور جنرل نجیب کی مشترکہ حکومت قائم ہوجاتی۔ افغانستان میں امن و امان ہوجاتااور ساری بیرونی طاقتیں منہ دیکھتی رہ جاتیں۔
۔۔۔۔اس مثال سے ماموں ناصر کی ہمدرد، صلح جو اور محبتی طبیعت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ اس وقت عالمی امن کی خرابی میں سارا قصور ان بڑے ملکوں کاہے جو خوامخواہ ’’ہیر کے مامے‘‘ بنے پھرتے ہیں جبکہ دنیاکو اس وقت خاص طورپر رانجھے کے ماموؤں کی ضرورت ہے۔ ماموں ناصر جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
٭٭٭
٭ افسوس یہ خاکہ رسالہ ’’صریر‘‘میں چھپنے کے بعد غزالہ اور محمود میں علیحدگی ہوگئی۔ پتہ نہیں یہ اس خاکے کااثر تھایا محمود کی اپنی خاک کا۔۔ ۔غزالہ اب محمد اجمل پاشا کی بیوی ہے ۔خدا ان دونوں کوخوش رکھے آباد رکھے ۔ ۔۔
اور درویش کی دعاکیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حیدر قریشی شاعر ،افسانہ نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں اوران کی یہ تینوں خصوصیات ان خاکوں میں جمع ہوگئی ہیں ۔ ان میں جا بجا بہت سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت اور خیال انگیز افسانے بھی مل جاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے ماموں ناصر کاواقعہ لکھا ہے کہ وہ کہیں بھی ہوتے ہرسال بہار کے دنوں میں انہیں ڈسنے کے لئے ایک ناگن آیاکرتی تھی جس کے محبوب (سانپ )کوان کے ملازموں نے ہلاک کردیاتھا۔ یوں بھی اس واقعہ میں بلاکی افسانویت تھی مگران کے اندازِ نگارش نے اسے اور بھی دل آویز بنادیا۔ ‘‘(منشا یاد کے مضمون میری محبتیں سی
اقتباس۔مطبوعہ ادبی کتابی سلسلہ عکاس اسلام آباد۔اکتوبر ۲۰۰۵ء۔ص ۴۴)