ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
بعض اوقات یادوں کے دریچے کھولیں تو خوشگوار معطّرہوائیں مشّامِ جاں کااستقبال کرتی ہیں اور بعض چہرے زیادہ نکھر کر زیادہ خوبصورت بن کر نظر آتے ہیں‘ جن کو بار بار یاد کرکے دل مسرت و طمانیت سے بھر جاتا ہے۔ایسے ہی میرے ایک استاد پروفیسر ناصر احمد ، کہنے کو تو انہوں نے مجھے بی اے کی انگریزی پڑھائی مگر اس کے ساتھ وہ کتابِ حیات کے کتنے سبق پڑھا گئے، مجھے انسان بننے کا سلیقہ سکھا گئے، میں ان کو دیکھ کر ہی استاد بنا۔ میں سوچتاتھا کہ اگر استاد ایسا ہوتا ہے تو اس سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں۔
پروفیسرناصر احمدپہلے میرے استاد و مربی بنے پھر مانسہرہ کالج میں میرے شریکِ کار کولیگ ہوگئے مگر کسی جگہ ان کے محبت آمیز رویے میں فرق نہ آیا۔ وہ انگلی پکڑے مجھے محبت و مروت کی اونچائیوں کی طرف ہی لے جاتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے ہی نہیں، جو ہے دوسرا انسان اور اس کے مسئلے ہیں ۔ بعد مدت کے کھلا کہ ان کا یہ رویہ کسی ایک فرد کے ساتھ نہیں سب انسانوں کے ساتھ ہے ۔ بلالحاظ عمر، عہدہ، زبان ،علاقہ، وہ مدد کرتے ہوئے کبھی کسی سے اس کا نام، پتہ، مسلک و مذہب و علاقائی ڈومیسائیل نہیں پوچھتے تھے۔عجیب حیران کن آدمی تھے، ملازمت رات والی اختیار کی تھی کہ دن کی روشنی کام و خدمت کیلئے مل جائے۔ریلوے کے افسر ، ٹی ٹی یا ریلوائی تھے، بھاری بھر کم مدبر ، ان پر نیلی وردی سجتی تھی،رات کی ریل سے پتہ نہیں کہاں تک سفر کرتے،صبح نو دس بجے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں بطور طالبعلم موجود ہوتے، شام کو ایک استاد بن کر غریب طلباء کی کوچنگ کرتے، ان کو ایف اے۔بی اے کیلئے تیاری کراتے ، گہری گرجدار مگر دھیمی آواز تھی جو ہزاروں آوازوں میں پہچانی جاتی تھی،لب و لہجہ مروتوں میں جو مٹھاس سے معمور تھا،مجھے ظہور بھائی ہی کہتے تھے مگر وہ تو سب کو اس کے اصل نام کے ساتھ بھائی کا لاحقہ سابقہ لگا کر اپناتے، سینے سے لگاتے۔ آپ اپنا کوئی مسئلہ بیان کر دیں بس اسی لمحے وہ مسئلہ آپ کا نہیں ان کا ہو جاتا تھا۔وہ ایک بھاری بھر کم ڈائری ساتھ لیے پھرتے تھے جس میں فالتو کاغذ ہی کاغذ بھرے ہوتے تھے، لوگوں کی درخواستیں، سفارشوں کے کاغذ، کسی کے میڈیکل بل، کسی کے تبادلے کے کاغذات ۔ کبھی انکار ان کے لبوں پر آتا ہی نہیں تھا۔مسلسل پتلون پہنتے اور ساتھ پاؤں میں پشاوری چپل اور ڈائری بدست سارے شہر بلکہ ملک میں گرداں، پتہ نہیں کب سوتے تھے۔مجھے مانسہرہ میں ان کے ساتھ ایک گھر میں رہنے کا شرف حاصل ہواہے مگر میں نے ان کو سوتے نہیں پایا ، میں سو جاتا تھا وہ مسلسل کام کرتے تھے۔ طالبعلم آ رہے ہیں ، کسی کو پڑھا رہے ہیں ، کسی کے ذاتی مسائل حل کر رہے ہیں، کسی کی مالی امداد کر رہے ہیں۔میں جب پوسٹنگ پر مانسہرہ گیا تو ناصر صاحب بس سٹاپ پر ایک گھنٹہ پہلے میرے انتظار میں ٹہل رہے تھے۔احتیاطاً اپنے ساتھ کالج کا چپڑاسی مع ایک عدد ریڑھے کے لا کھڑا کیا تھا کہ مبادا سامان زیادہ ہو۔ مانسہرہ نشیب و فراز میں بنا ایک چھوٹا ساشہر تھا، سامان اوپر لے جانا مشکل تھا، پروفیسر ناصر صاحب ،آفتاب ملازم کے ساتھ خود ریڑھا گھسیٹتے اپنے گھر کی طرف چلے، میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے کسی چیز کو ہاتھ لگانے نہیں دیا۔
گھر پہنچے تو میرا کمرہ اور بستر سجا تھا، میز پر تازہ پھول رکھے تھے، دودھ کا تازہ گلاس اور تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کوئی اسپرو قسم کی گولی حاضر تھی۔ میں حیران و پریشان مگر وہ خود خور سند و شاداں۔جتنا عرصہ وہاں رہا ان کا مہمان ہی رہا۔ نہ کوئی کرایہ لیا نہ ہی خوراک کا خرچہ۔ وہ ایک دن کیلئے کہیں جاتے تو کھانے پینے کا پورا سامان رکھ کر جاتے۔ فریج وغیرہ تھے نہیں مگر موسم ٹھنڈا تھا اسلئے بڑی لجاجت سے سر جھکا کر کہتے ظہور بھائی یہ سالن ذرا گرم کر لینا۔ وہ بات ایسے کہتے جیسے کوئی جرم و گناہ کر رہے ہوں۔میں اپنے دوسرے مشترک دوست پروفیسر زین العارفین سے کہتا تو وہ کہتے کہ بھائی اب آپ ان کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جب تک آپ اور وہ یہاں ہیں اور ان کا گھر ہے آپ سارے غموں کو بھول جائیں۔
میں جلد سونے کا عادی تھا، دوسرے دن اٹھ کر کالج چلا جاتا، ناصر صاحب نظر نہ آتے ، شام کو پوچھتا تو کہتے بس ذرا لاہور تک گیا تھا۔مجھے مانسہرہ سے ایبٹ آباد جانے کا صرف سن کر بخارچڑھتا تھا اور ناصرصاحب راتوں رات پتہ نہیں کہاں کہاں کا سفر کرکے صبح تازہ دم کلاس میں موجود ہوتے۔ انہوں نے میرے اندر اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق جگایا، وہ کتابیں لا لا کر دیتے اور بار بار پڑھنے پر اصرار کرتے۔ ان کی اپنی یاد داشت ناقابلِ یقین حد تک بڑی اور گہری تھی، کتابوں کے پورے پورے کوٹیشن، پوری غزلیں، نظمیں اور دوسری شماریات ان کو زبانی یاد ہو جاتیں۔میں اس معاملے میں ہمیشہ سے بودا اور کھوٹا رہا ہوں۔ میں کوئی چیز گھوٹا لگا کر یاد نہیں کرسکتا۔ ناصر صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ کتابوں میں سے عمدہ باتیں، اخباروں میں سے عمدہ خبریں، رسالوں میں سے اعلیٰ کار آمد شماریات، مشاعروں کے اچھے شعر اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا کرو۔ یہ کام میں نے تب سے شروع کر رکھا ہے۔اور اب بھی جب اپنی حوالہ جات کی ڈائری کھولتا ہوں تو ہر تراشے پر اپنے پروفیسر ناصر صاحب کی تصویر مسکراتی نظر آتی ہے۔وہ مجھ سے ہمکلام رہتے ہیں۔ ناصر صاحب اپنی کسی کاوش و کامیابی کا ذکر نہ کرتے آج مجھے ان کے بھائی صادق باجوہ کے نام سے پتہ چلا کہ وہ باجوہ تھے۔جٹ تھے مگر دوسروں کا ذکر بڑھا چڑھا کر دوستوں اور رشتہ داروں میں اندر ہی اندر کرتے رہتے۔انہوں نے میرا ذکراپنے عزیزوں میں اس قدر کر رکھا تھا کہ گویا میں ان کے لئے ہاؤس ہولڈ نام بن گیا تھا۔ان کے بعض بچوں اور رشتہ داروں سے میں کبھی نہیں ملا مگر وہ مجھے لنڈن، جرمنی اور امریکہ سے فون کرتے ، میرا احوال پوچھتے، میں ان کو فون کرتا۔ دو سال پہلے کی بات ہے لنڈن میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، کسی حوالے سے میرا نام وہاں پکارا گیاتو ایک نوجوان خوبصورت لڑکا میرے پاس بعد میں آیا اور اپنا تعارف پروفیسر ناصر صاحب کے کسی بھانجے ،بھتیجے یا اس کے دوست رشتہ دار کی حیثیت سے کرایا اور اصرار کیا کہ ہوٹل کا کمرہ چھوڑ کر اس کے ساتھ اس کے گھر چلوں۔میں نے پیار سے منع کیا کیونکہ میرا جانا ممکن نہ تھا۔ ناصر صاحب جب تک زندہ رہے وہ میرے پاس اپنی تاریخی ڈائری اٹھائے آتے رہے۔وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اول نوشہرہ اور پھر لاہور میں جاکر بس گئے تھے مگر میرے ساتھ رابطہ نہ چھوڑا تھا نہ توڑا تھا۔ میں حیران ہوتا کہ یا اﷲ یہ کس مٹی کے بنے ہوئے انسان ہیں۔آدمی ہیں ، جن وبھوت یا فرشتہ۔ وہ جو بھی تھے میرے لئے ما فوق الفطرت انسان تھے۔ اعلٰی ارفع اور سچی انسانیت کی منہ بولتی تصویر۔ انہوں نے مجھے سکھایا مگر منہ سے کبھی نہیں کہابلکہ کرکے دکھایا کہ ظہور بھائی محبت لینے کا نہیں دینے کا نام ہے۔ ان کے کردار سے ہی مجھے یہ سبق ملا کہ دوسروں کیلئے آ سانیاں پیدا کرو، اﷲ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا ۔میں نے غیر محسوس طریقے سے یہ باتیں اور ان کے کردار و عمل کی یہ خوبیاں اپنے اندر حتی المقدور بسا لیں ، اپنے اوپر طاری کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خبردار! تمہارے قلم ، قدم اور کرم یعنی کام سے کسی کو زک نہ پہنچے، ایک چیونٹی تمہارے پاؤں کے نیچے آ کر نہ مرے۔ وہ مجھے کہتے ظہور بھائی مجھے تو قلم اٹھانے کی ہمت نہیں نہ میرے پاس مسلسل حرکت و عمل کی وجہ سے وقت ہے، تم کو اﷲ نے ان صلاحیتوں سے نوازا ہے تم لکھو اور مسلسل لکھو۔ مزے کی بات ہے کہ وہ مجھے اس زمانے میں کہہ رہے تھے جب میں نے کچھ لکھا ہی نہ تھا نہ بطور قلم کار اپنے آپ سے واقف تھا۔ مگر ناصر صاحب یہ سب جان چکے تھے۔ آج جو میرا قلم چلا ہے، چل رہا ہے ان کے قدموں اور کرموں کے طفیل ہے، میرا سر ان کے ذکر کے سامنے فرطِ محبت و احترام سے جھک جاتا ہے اور میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ جرمنی میں ا ن کی بیٹی اور داماد سے ملاقات ہوئی تو ان میں وہی محبت و اپنائیت پائی۔اب بھی جرمنی کے ممتاز ترین ادیب و شاعر حیدر قریشی سے فون پر بات ہوتی ہے تو وہ مجھے اپنے ماموں جیسا جانتا ہے، ناصر صاحب کی بیٹی میں مجھے ان کا پیا رجھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کا ایک بھائی صادق باجوہ امریکہ میں مقیم ہے ،میری لینڈ میں ہوتا ہے اور شاعر بھی ہے۔ کل پرسوں دلی سے ان کی شاعری کا ایک مجموعہ "میزانِ شناسائی" کے نام سے ملا اور اس میں اس کا انتساب ان کے بڑے بھائی پروفیسر ناصر احمد کے نام کا نظر آیا تویادوں کے سارے دریچے میری آنکھوں کی نمی کو لئے ایک بار پھر پوری طرح کھل گئے اور صادق باجوہ صاحب کا یہ شعر اس وقت میرا حسبِ حال بنا آنکھوں میں جھلملا رہا ہی
آنکھیں خوشیوں سے بھیگتی ہیں ضرور جب کوئی بھولا غم گسار آئے
’’میزانِ شناسائی‘‘تقریباً سوا سو صفحات پر مشتمل خوبصورت غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے اور ایک ایسے شاعر کا ہے جسے اپنا شاعر ہونا یاد ہی نہ تھا، کبھی کبھارغزلیں کہہ کر وہ گھڑے میں ڈال دیا کرتے تھے۔ اب دوستوں کے اصرار پر اسے"میزانِ شناسائی" کے نام سے دلی سے چھپواکر اپنے اور ناصر صاحب کے دوستوں اور شاگردوں میں تقسیم کیا ہے۔ آجکل لوگ اپنی کتابیں بھارت سے چھپوا کروہیں سے بذریعہ ڈاک دنیا بھر میں بھجواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں کتابت، طباعت، کاغذ اور ڈاک کا خرچہ انتہائی سستا ہے۔ پاکستان میں محکمہ ڈاک الٹی چھری سے ذبح کرتا ہے۔مجھے جو کتاب بھارت کے 20 روپئے کے ٹکٹ پر آتی ہے وہ میں نے اپنے ڈاکخانے میں جاکر تلوا کر دوبئی بھجوانی چاہی تو خرچہ 480 روپئے بتایا گیا۔دراصل میں نے صادق باجوہ صاحب کی کتاب پر یہ کالم لکھنا تھا مگر بیچ میں ناصر صاحب کی یادوں کے چراغ اس طرح روشن ہوئے کہ میری آنکھوں کے آگے آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ باجوہ صاحب کے ایک دو شعروں پر اکتفا کرتا ہوں۔
جب بجھی یادوں کی شمعیں ضو فشاں ہو جائیں گی آنسوؤں کی آبجوئیں بھی رواں ہو جائیں گی
کتنی محدود ہو گئی دنیا حسنِ ایجاد کی پذیرائی
ظلمت کدۂِ دہر میں نفرت تھی کارگر گلپوش پھر بھی نخلِ محبت سدا ہوئے
آہ مظلوم کی جب بھی نکلے عرش تک حشر بپا ہو جائے
"میزانِ شناسائی" سادہ معصوم جذبات کی معصوم سی غیر رسمی آبجو ہے، شاعر نے لفظوں کے موتی محبت کی لڑی میں پرو کر پیش کئے ہیں اور میرے دل میں اپنے استاد کی محبت کے پھول ایک بار پھر مہکا دئے ہیں۔
(مطبوعہ ’روزنامہ آج‘ پشاور۔ ۵اگست ۲۰۰۸ء ۔)
’’اپنے ابتدائی بچپن میں ادبی اثرات جذب کرنے کے حوالے سے میں نے مختلف اوقات میں جن قریبی عزیز شخصیات کا ذکر کیا ہے،ان میں ابا جی کا میرے اسکول جانے سے پہلے مجھے اردو پڑھنا،لکھنا سکھانا،امی جی کا اردو ناول شوق سے پڑھنا اور ایک طویل پنجابی نظم لکھنا،ماموں ناصر کی گفتگو میں ادب کا گہرا تاثر ملناشامل ہیں ۔ تاہم ماموں صادق میرے ننہالی خاندان میں واحد شخصیت ہیں جن کو میں نے بچپن میں ہی شاعر کے طور پر دیکھا اور ان کی شاعری سمجھ میں آئی یا نہیں آئی لیکن ان سے متاثر رہا۔اس حوالے سے میں مختلف اوقات میں ان کا ذکر کر چکا ہوں۔۔۔میرے اس لکھے کا اتنا فائدہ ہوا کہ صادق باجوہ کے نام سے لکھنے والے میرے ماموں صادق کو تھوڑی تحریک ہوئی۔میرے مسلسل اصرار کے بعد انہوں نے پاکستان سے اپنی بعض پرانی ڈائریاں تلاش کرا ئیں ، یوں مجھے ان کی شاعری تک رسائی کا موقعہ ملا۔۔۔میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ ماموں صادق نے نہ صرف اپنی پرانی شاعری تلاش کر کے مجھے فراہم کر دی بلکہ اب وہ کچھ نئی نظمیں اور غزلیں بھی کہنے لگ گئے ہیں‘‘
(میرا پہلا ادبی حوالہ از حیدر قریشی مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ:۳،جولائی تا دسمبر۲۰۰۴ء)