ایوب خاور(کراچی)
خزاں کو کیا ہوا ہے
خزاں کو کیا ہوا ہے
یہ مرے دل کی رگوں میں سے نکل کر
شہر کی گلیوں، محلّوں ،شاہراہوں اور سڑکوں پر
بھلا کیوں دندناتی پھر رہی ہے!
میں نے تو اس کو بہت مشکل سے
اپنی دھڑکنوں کی چپ میں کس کر باندھ رکھا تھا
اور اب یوں ہے کہ میری آرزوئیں
اور سارے خواب،
پتّوں کی طرح سوکھی ہَوا کے ہاتھ میں
لاوارثی کی گردمیں لپٹے، بگولہ وار اُڑتے پھر رہے ہیں
کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ، دریچہ، کھل نہیں سکتا
مقفّل ہے
یہ شہر اندر سے باہر سے مقفّل ہے
خزاں کو کیا ہوا ہے……!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نظم
[ن۔م۔راشدکی نذر]
اجل
اپنا رستہ بدل
میرے دل سے نکل
مجھ سے دو ہاتھ دوری پہ چل
اجل
مجھ کو تم سے ضروری
بہت ہی ضروری کوئی کام کرنا ہے جس کے لیے مجھ کو بھیجا گیا ہے
ابھی جا……کسی اورکی آرزوئیں کُچل
ابھی مجھ کوفرصت نہیں
کسی اور دن آکے ملنا
میں اُس دن سے پہلے تمھیں خود ہی آوازدوں گا
ابھی جا
چلی جا
مرے پاس اس وقت تم کو
اپنے دلِ بے اماں کا
مہماں بنانے کی کوئی سہولت نہیں
اتنی فرصت نہیں جانِ جاں
میرے دل کی رگوں سے نکل
میرے سائے سے بھی کچھ قدم اوردُوری پہ چل
بلکہ آگے نکل
آج کے دن کے اس لمحۂ وصل میں جا،کسی اور تھل کو نگل
میرے تھل کی سلگتی ہوئی ریت میں
حبس کی کروٹیں
پیاس کی بارشیں
وقت کی سلوٹیں
اَن کھلی کونپلیں
ان سِلے خواب ہیں
اپنی تکمیل واظہار کے ایک شاداب سانچے میں
ڈھلنے کوبے تاب ہیں
ریت کی کِرکِراہٹ میں سبزہ اُگلنے کی گُنجائشیں
کب نہ تھیں
اب بھی ہیں
لیکن اے جانِ جاں
آب و دانے کی
آئینہ خانے کی نعم البدل
اے اجل
عرصۂ دشتِجاں میں
برائے دلِ عاشقاں
اے غزل میں تغزل کی نعم البدل
دیکھ ابھی میرے ہاتھوں سے،پیروں سے،پلکوں کی شاخوں سے
سینے کی دھنکنی سے،سانسوں کی پھنکنی سے
اس فاحشہ زندگی کے کئی بے ثمر
خاروخس ہیں جو وحشی بگولوں کے مانند
چپکے ہوئے ہیں
اجل
جان دہشت صفت
میں ازل اورابد کے میاں
اپنے ہونے نہ ہونے کے اک زینۂ بے نشاں کے قدمچوں پہ
اک چھیتھڑے کی طرح کچھ لڑھکتاہوا،
کچھ پھسلتاہوا،کچھ اٹکتاہوا
ایک بے عکس آئینے کی اندھی پہنائیوں میں کہیں گونجتا جارہا ہوں
ابھی مجھ کو فرصت نہیں ہے
ابھی میرا پاتال مجھ سے بہت دور ہے
اجل
اپنارستہ بدل
میرے سائے میں چل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماوس
رقص کرنا تھا سمندر نے
مگر یہ چاند !
اس کو کیا ہوا!……
اس چودھویں کے چاند کو کس کی نظر کے
کالے بادل گھیر کر اپنی گپھامیں لے گئے
اے رات!
آنکھیں کھول
اک لمحے کو دیکھ
اپنے ساحل سے پرے
بوڑھا سمندر
رقص کے اِک زاویے میں منجمد ہے
منتظر ہے
چاند کو اپنی گپھا میں سے نکال
تاروں سے کہہ
بادلوں کی اوٹ سے نکلیں
ذرا سی دیر کو
اپنی جھلمل کی ……تکت، ترکٹ ،تہ ،دھا،تک، سے
کتھک کی لے دکھائیں
آنکھ بھر اس آسماں پر
کہکشاں ترتیب دے کر تال دیں
بوڑھا سمندر
رقص کرنے کو بہت بے تاب ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رقاصہ سے
کون سے گیت کی لَے
کون سے راگ کے سُر
کون سی تال کے وقفے میں ترا ذہنِ رسا
سانس لیتا ہے
مجھے یاد کیا کرتا ہے
مگر ایسے میں، کِسے!کون!کہاں یاد کیا کرتا ہے
سانس پر سانس چڑھی ہوتی ہے
رقص کے تیز، سُبک، گرم بہاؤ میں تجھے
دیکھنے والوں کی
وحشت میں سلگتی آنکھیں
سَر سے نوکِ کفِ پاتک
تیرے سُر تال میں بھیگے ہوئے
کم خواب صفت جسم پہ جب رینگتی ہیں
ایسے میں دُور کہیں
تیر ی دَہکار کی صر صر سے بہت دُور کہیں
کُنجِ تنہائی کی بُکّل میں ٹھٹھرتے ہوئے
بے رخت مسافر کو
بھلا کون! کہاں یاد کیا کرتا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
التجا
رُدھالی!سن
مجھے رونا نہیں آتا
میں اپنے سب سے پیارے خواب کے
مرنے پہ رونا چاہتا ہوں
اور مجھے رونا نہیں آتا
ردھالی!
تجھ کو رونے کی کمی کب ہے
تری زنبیل میں کیا کیا نہیں ہے
آنسوؤں کی کہکشاں ہے، درد میں ڈوبی ہوئی
سسکار کا جادو، صفاتِ گریہ سے لب ریز لفظوں
کے سبک آہُو اور اُس پر ایک وحشت سے
بھری بے ربط سر گم کی فُسوں کاری
ردھالی!
تیرے سینے کی اتھاہ زنبیل میں ہرغم کا نم ہے
تُو تو سخیوں کی سخی ہے
اے سخی!
صرف ایک آنسو
ایک سسکی
اور اک وحشت بھری آواز کی بے ربط سرگم کی فسوں کاری
مرے اس خواب کی میّت کے پہلو میں سخن کردو
مجھے رونا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفوگر!
رفوگر!
دھیان سے
یہ زخم خنجر کے نہیں
ادھڑے ہوئے وعدوں کی رسوائی کے ہیں
اِنھیں چُھونا نہیں
اِن کی تہوں میں جھانک کر
دردِ مسلسل کے دھڑکنے کو پرکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے
دل ہے آخر
اور پھر زخموں سے چھلنی ہے
کہیں سے لاؤ اُس کے لمس کا اطلس
کہیں سے لاؤ اُس کا عکسِ مہ تابی
رفوگر!
اُس کے کُنجِ لب سے کوئی مسکراہٹ کا ذرا سا شائبہ،
اک واہمہ
اُس کی گلابی انگلیوں کا رَس……مگر…… بس
اب نہیں…… اب کچھ نہیں…… بے فائدہ ہے
کچے پکّے عشق کے مدِّ مقابل
تیسرے درجے کا کینسر!
رفوگر!
زخم رہنے دو، یہ جیسے ہیں اِنھیں ویسا ہی رہنے دو……
مگر……بہنے نہ دو
ایسا کرو
لوہے کی تاروں سے اِنھیں آہستگی کے ساتھ سِی دو
اور ملاقاتی کوئی آئے
تو باہر لکھ کے لٹکادو
کہ چھوٹی عمر میں
اتنے بڑے اور بوڑھے زخموں والے پیشنٹ دیکھنا
اچھا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک منجمد وداعی لمحہ
میں نے جُوں ہی کمرے کا دروازہ کھولا
دیکھتا کیا ہوں!
کمرے کی جو چیز جہاں تھی
ویسی کی ویسی دھری ہوئی ہے
ڈریسنگ ٹیبل کے کونے پر
سیفٹی پن کے ڈبے کا ڈھکنا بس یوں ہی گرا پڑا ہے
ہیئربرش کے دانتوں میں
کچھ بال ہیں تیرے پھنسے ہوئے
سینٹ کی شیشی کُھلی ہوئی ہے
تیرے پرس کے اندر سے اِک شخص کی فوٹو اُس کے
اُوپر گری ہوئی ہے
میری چپلیں
بالکنی کے دروازے کی اوٹ میں اُلٹی پڑی ہوئی ہیں
میری گھڑی
اور تیرا کنگن
تکئے کے نیچے سے ہوکر فرش پہ اوندھے پڑے ہوئے ہیں
ٹی وی سیٹ بھی جب سے یوں ہی کھلا ہوا ہے
کین کے سنگل سیڑ کے اک بازو پر
میری بیلٹ کے ہُک میں تیرے
سبز دوپٹے کا اک کونا اَڑا ہوا ہے
بستر کی چادر اور تکیے
اک دوجے سے گتھم گتھا ہوکر گہری نیند کے تھل میں
دھنسے ہوئے ہیں
توُ نے جانے سے پہلے
جو منظر جامد کیا تھا، اُس میں
کمرے کا دروازہ کھول کے میں بھی شامل ہوا کھڑا ہوں
کاش!
اچانک دھم سے آکر
توُ اِس جمے ہوئے منظر کو
اپنی آہٹ کی حدّت کی آنس تودے
مجھ سے باہر،مجھ میں شامل
اس منظرکاکوئی حصہ سانس تولے!……