ستیہ پال آنند (امریکہ)
اندر باہر کی نظمیں
اگنی کنڈ
آگ اندر ہے، باہر نہیں
چیختا ہوں بہت!
میرے چاروں طرف
خیر خواہوں، رفیقوں کی اک بھیڑ ہے
جُھنڈ کے جھنڈ ہیں
کوئی آب مقّدس کا کوزہ لیے
گنگا جل سے کوئی ایک گڑوا بھرے
ہاتھ اٹھائے ہوئے سب چھڑکنے کو تیار ہیں
تا کہ باہر کی آتش کو گلزار میں
یوں بدل دیں کہ اندر کے نمرود سے بچ سکوں
چیختا ہوں بہت
آگ اندر ہے، باہر نہیں
پر مری بات کوئی بھی سنتا نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صورت گر
کچی مٹّی
میرے اندر
خود ہی اک بُت کی صورت میں
ڈھلنے کو تیار ہے، لیکن
میرا چاک تو مجھ سے باہر گھوم رہا ہے
میں اند ر کی ’ان گھڑ ‘ مورت
خود سے باہر کیسے لاؤں؟
کیوں میں اپنی کوکھ کی جنّت سے آدم کی کچی مٹّی
اس دنیا میں اتاروں، جس میں
کوزہ گر کہلانے والا
کوئی حسنؔ تیار کھڑا ہے
جو یہ آدھی ادھوری مورت
صدیوں پرانے، ٹوٹے پھوٹے چاک پہ رکھ کر
اک وحشی حیوان کے قالب میں ڈھالے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل میں واپسی
میں جنگل میں کبھی آباد تھا
پیڑوں کی آبادی میں ان کے سنگ اگتا تھا
جڑیں میری سلامت تھیں
مگر لاکھوں برس پہلے جڑیں ٹانگوں میں بدلیں، تو
نباتاتی حکومت نے
مجھے’ جنگل نکالا‘ دے کے یہ تلقین کی․․․․جاؤ
تم انسانوں کی بستی میں رہو، پھولو، پھلو
جنگل تمہاری نسل کا مسکن نہیں، انساں!
میں شہروں میں چلا آیا تو تھا ، لیکن
میں جنگل کوبھی اپنی روح میں محفوظ رکھ کر ساتھ لایاتھا!
جڑیں جب کٹ گئی ہوں، کوئی
جنگل کو کہاں تک اپنے اندرروح میں رکھے؟
جڑوں سے ٹوٹ کراپنی
میں اب تک تو رہا ہوں سرگراں باہر کی دنیا میں
مگر اب تھک گیا ہوں․․․․
لوٹ جانا چاہتا ہوں اپنے جنگل میں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آلِ قابیل
’’کوئی سبطِ آدم بھی ہے اور مجھ سے سوا اس جہاں میں
کہ میں اک اکیلا ہی حقدار و مختار ہوں جدِ امجد کی اس حق رسی کا؟‘‘
جو اندر سے میرے
یہ آواز ابھری
تو میں نے یہ چلّا کے باہر کے لوگوں سے پوچھا
اٹھائے گئے ہاتھ باہر کے لوگوں کے
اربوں میں، کھربوں میں تھے
کوئی باقی نہیں تھا کہ جو ’ابنِ آدم‘ تو ہو
شجرۂ نسب میں، ابویت میں مگر
سبطِ آدم نہ ہو!
جو پوچھا یہ کیوں ہے، توخلقت سے پہلے
مرے اپنے اندر نہاں اک فرشتہ تکّبر سے بولا
سُن اے شاعر نکتہ رس، اپنے اندر کی آواز سن
یہ مانا کہ تم ایک فردِ بشر ہو، مگر
تم بھی تو خاک زادے ہو، نوری نہیں․․․․
․․․آلِ نا خلفِ قابیلؔ ہو
اور قابیلؔ تو اپنے بھائی کا قاتل بھی تھا، گور کن بھی!
اسی اک حوالے سے تم سارے انسان
آدم کے پوتے ہو، بیٹے نہیں ہو!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
اندھا ہو گیا ہے
ستیہ پال آنند اندھا ہو گیا ہے!
ذو نگاہی ۲ یوں بھی اس کی ذات کا شیوہ نہیں تھی
اپنی آنکھوں سے اسے شکوہ بہت تھا
اپنے ’’اندر‘‘ دیکھ سکنے کی صلاحیت سے عاری
صرف ’’باہر‘‘ دیکھتی تھیں
دیکھتی تھیں․․․کم نظر لوگوں کی کم ظرفی
تفاوت، ان کے ظاہر اور مخفی
دیدنی ، نا دیدنی کردار میں ، گفتار میں
اس کی آنکھیں نا مکمل عضو تھا اس کے بدن کا!
کوئی ما بعد النظر۲ منظر بھی ان کو
اس قدر دلکش نہیں لگتا تھا
جس کو دیکھ سکتیں
ماورا ہو کر انا سے، دور ہٹ کر!
دوسرے لوگوں سے عاری بھی تو اک دنیا ہے
اُن اندھی گپھاؤں میں بسی
جو اس کے اپنے ذہن کی گہرائیوں میں سو رہی ہے
اس کی آنکھیں (خود سے اس نے بارہا پوچھا تھا)
آخر رخ پلٹ کر
اُلٹے پاؤں گھوم کر
اندر کی جانب کیوں نہیں کھلتیں
انہیں کیا وسوسہ ہے، خوف ہے کیا؟
ستیہ پال آنند اندھا ہو گیا ہے
کس قدر خوش ہے
کہ مابعدالنظر منظر بھی اس کی دسترس میں آ گیا ہے!
۱۔ double vision
۲۔Meta vision
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کلامی
خود کلامی کی مجھے عادت نہیں ہے
دل کا شیرازہ بکھرتا ہے تو جیسے
گو مگو کی کیفیت میں
کوئی مجھ سے پوچھتا جاتا ہے
باتیں ۔ میرے اندر اور باہر کے سبھی قصّے پرانے
اور اسی انداز سے
حرف و ندا کے انسلاکِ باہمی سے
دوسرا کوئی
درونِ جاں کہیں بیٹھا ہوا
اُس فردِ اوّل سے
نفی اثبات میں کرتا چلا جاتا ہے
ایسی گفتگو جو
میرا ساجھا ’’مَیں‘‘ نہیں سنتا، مگر تب
گفتنی نا گفتنی پہلے سوالوں
اور اندر کے جوابوں
سے کئی نکتے ابھرتے ہیں تو میں کچھ
بولنے لگتا ہوں ۔ خود سے؟
یا مرے اندرنہاں اک شخص سے، جو
میں نہیں ہوں، میرا ’’میں‘‘ ہے!