طاہر عدیم(جرمنی)
اندھیرا ہے ہر اک جانب
اندھیرا ہی اندھیرا ہے
کسی آہٹ پہ آدھی رات کو جب آنکھ کھُل جائے
ہیولیٰ تیرگی کا آنکھ کے رستے بدن میں تِیر ہوتا ہے
اندھیرے میں دہلتے دل سے میری انگلیاں
عینک اٹھانے کوجتن کرتیں۔۔بہت لمبا سفر کر کے
بالآخر ڈھونڈ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مری عینک
ٹکا کر ناک پر اس کو ابھی میں سوچتا ہی ہوں
کہ لائٹ آن کر دوں اور دیکھوں۔۔۔کیسی آہٹ تھی
اندھیرے میں جسے سُن کر بدن میں کپکپاہٹ تھی
یکایک تیرگی کے دل میں خاموشی کے
بھاری پتھروں کو چیرتی دھیمی سی اک اللہ اکبر کی صدا کانوں میں پڑتی ہےہمیشہ کی طرح مَیں مسکرا کر
جاگتی آنکھیں ذرا سی موند لیتا ہوں
اور اپنے آپ سے کہتا ہوں۔۔آیا ۔۔۔وہ ابھی آیا
یہ اک گھنٹہ۔۔۔۔۔۔مری ایکٹنگ کا ہوتا ہی
(یہی گھنٹہ بدلتے روزوشب کے پورے ان چوبیس گھنٹوں کاہُوا کرتا ہے حاصل)
پھر کبھی سسکی کبھی ہچکی بھری آواز کے محتاط زیروبم
سکوتِ شب کے سینے پر اُبھرتے ہیں
ردائے تیرگی پر اک نمی سی چھوڑ جاتے ہیں
تہِ دل میں کوئی خواہش جمی سی چھوڑ جاتے ہیں
یہ زیروبم سکوتِ شب کے سینے پر
پڑے اثرات کی چادر
بہت دھیرے سے واپس کھینچتے ہیں
اوردبے پاؤں کی اک اک چاپ میری سمت
بڑھتی۔۔اور واضح۔۔۔اور واضح ہوتی جاتی ہے
بہت معصوم بن کے پھر بھی مَیں
سویا ہی رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔بظاہر
اچانک ہی کہیں ہونٹوں کے چھلے سے نکلتی ۔۔گھومتی
تازہ ہوا کے چند جھونکے اپنے اندر کچھ طلسماتی سے احساسات لے کرگھیر لیتے ہیں مرا تن من
کسی کے ہونٹ چھوتے ہیں مرا ماتھا
پروتا انگلیاں ہے کوئی بالوں میں
بہت انجان بن کرمَیں ذرا سا کسمساتا ہوں
وہی محتاط پاؤں رخ بدل کر چپکے چپکے لوٹ جاتے ہیں
اُسی جانب جدھر سے آئے ہوتے ہیں
سُنا ہے باپ سے اپنے ۔۔۔
ہُوا کرتا تھا اُس کے ساتھ ایسے ہی
تصور میں۔۔۔مَیں روزانہ
اسی گھنٹے کو خود پہ طاری رکھتا ہوں۔۔۔میسر تھا حقیقت میں جو میرے باپ کو لیکن
میسر ہے تخیل میں فقط مجھ کو
بس اک حسرت سی رہتی ہے کہ روزانہ
مرے ماتھے پہ ایسے ہی کسی بوسے کا سورج روشنی بھرتا
مری ہر آنے والی صبح کا دامن
ضیائے آگہی سے بھر کے چلتا ہی چلا جائے
رگوں میں وقت کی چلتا ہر اک لمحہ
ٹھہرتا ہی چلا جائے!