معیدؔرشیدی
میری تقدیر میں جانے کیا ہے!
کیا ہے؟
زندہ رہنے کے سوا
چلتے رہنے کے سوا
نہ کوئی منزلِ مقصود ،نہ سیدھا رستہ
بس وہی پائے مسلسل کی تھکن
بس وہی کرب ،وہی مایوسی
شدّتِ دھوپ
پیاس کا صحرا
آزمائش کا سمندراور طوفانِ بلا خیز
آندھیاں مجھ کو ڈراتی ہیں مگر
سلسلہ خواب کا رکتا بھی نہیں
گھیر لیتی ہے مجھے تیرگی اکثر آکر
پر کہیں سے کوئی جگنو بھی چلا آتا ہے
اور میں
باوجود اپنی اداسی کے
اک نئی راہ پہ چل پڑتا ہوں
سوچ کر یہ اکثرکہ یہ جو کچھ ہے
زندہ رہنے کی سزا ہے شاید!
زندگی مجھ سے خفا ہے شاید!!