معیدؔرشیدی(دہلی)
اِس آسماں کی وسعت میں
اِسی زمیں کی مٹّی میں
سمندروں کی لہروں میں
نحیف سی وہی آواز
صدائے بازگشت اس کی
پکارتی ہے ماضی کو……!
حویلیاں ہوئیں کھنڈر
تباہ ہو گئے منظر
بکھر گئے وہ سارے خواب
اجڑ گئے سبھی ارمان
جو مر گئے وہی احساس
جو دب گئے ہیں ملبے میں
تلاش میں وہی جذبات
کہاں گئے وہ سارے خواب؟
کہاں گئے وہ احساسات؟