فیصل عظیم(امریکہ)
یہی ہو رہا ہے
ہر اک دن مسلسل یہی ہو رہا ہے
صبحٗروزٗ میں تازہ دم ہو کے اُٹھوں
بہت سی توانائیوں کو سمیٹے
بہت عزم لے کے میں گھر سے چلوں بھی
مگر ایک لمحہٗ وہی روز جیسا
خموشی سے مجھ میں کہیں آکے بیٹھے
کسی کی صداؤںٗ اداؤں میں ڈوبا
وہ یادیںٗ وہ باتیں جو پھر مجھ میں گونجیں
تو یکدم تھکا ہارا اور مضمحل سا
میں خود میں سمٹ کر گنوں لمحہ لمحہ
’’گزر جائے یہ دنٗ ڈھلے شام جلدی‘‘
کہ جو کہنا چاہوں
کوئیٗ جو نہیں ہے
کوئیٗ جو نہ ہوگا
میں جب تک یہ سب کچھ اُسی سے نہ کہ دوں
یہ ہوتا رہے گا
یہی ہو رہا ہے
ہر اک دن مسلسل یہی ہو رہا ہے