پروین شیر
تو یوں ہوا ہے کہ تیرگی بے نشاں ہوئی ہے
یہ چاند لمحے،ستارہ محفل
جو تیرے پیکر سے ہیں فروزاں
یہ روشنی کی ردا میں جاں کو سمیٹتے ہیں
ہنسی کے جگنو
جو تیرے لب پر دمک رہے ہیں
اندھیری راہیں اجالتے ہیں
گلاب عارض
ہوا میں خوشبو کے نرم ریشم بکھیرتے ہیں
جو تجھ کو دیکھوں تو میری آنکھوں کی سر زمیں پر
مسرتوں کی پھوار کرتی ہے آبیاری
اسی کے نم سے
شجر یہ جاں کا ہرا بھرا ہے
جو تجھ پہ سایہ فگن ہوا ہے
وہ کس قدر تھی
حسین ساعت،رحیم ساعت،کریم ساعت
کہ جب مرے دامنِ دعا میں
عطا کیا تھا تجھے خدا نے!